'صدر زیلنسکی ہیرو بن گئے ہیں'

پیرس کے گریواں میوزیم نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا موم سے بنا مجسمہ ہٹا دیا ہے۔ میوزیم کا کہنا ہے کہ یہ مجسمہ پوٹن کے یوکرین پر حملے کے خلاف احتجاجاﹰ ہٹایا گیا ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

گریواں میوزیم کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں کچھ مظاہرین کی جانب سے پوٹن کے مجسمے کو توڑنے کی کوشش بھی کی گئی تھی، جس دوران اس مجسمے کو نقصان بھی پہنچا۔

پوٹن کا یہ مومی مجسمہ سن 2000 میں بنایا گیا تھا۔ اب اسے میوزیم کے ویئر ہاؤس میں رکھ دیا گیا ہے۔ گریواں عجائب گھر کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پوٹن کے مجسمے کی جگہ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کا مجسمہ نمائش کے لیے رکھ سکتے ہیں۔


میوزیم کے ڈائریکٹر یویس ڈیلہومیو نے فرانس کے بلیو ریڈیو کو بتایا،''اب یہ ممکن نہیں کہ ہم پوٹن جیسے شخص کے کردار کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ میوزیم کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم حال ہی میں پیش آنے والے تاریخی واقعات کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔''

ڈیلہومیو کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں میوزیم کا دورہ کرنے والے کچھ افراد نے اس مجسمے پر حملہ کر دیا تھا اور اسے نقصان پہنچایا۔ عجائب گھر کے ڈائریکٹر کا کہنا تھا،''جو ہوا اس کے نتیجے میں ہم نے اور ہمارے عملے نے فیصلہ کیا کہ ہم روزانہ اس مجسمے کے بال اور اس کی حالت کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔''


میوزیم کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ کس صورت میں پوٹن کے مجسمے کو واپس نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔

عجائب گھر میں پوٹن کا مجسمہ امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان رکھا گیا تھا۔ جب میوزیم کے ڈائریکٹر سے پوچھا گیا کہ اب پوٹن کے مجسمے کی جگہ کون لے گا تو ڈیلہومیو کا کہنا تھا کہ شاید یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی۔ ڈیلہومیو کے مطابق،'' شاید صدر وولودیمیر زیلنسکی کا مجسمہ پوٹن کے مجسمے کی جگہ رکھا جائے گا، وہ مزاحمت کر کے اور اپنے ملک سے فرار نہ ہو کر ہیرو بن گئے ہیں۔ وہ بالکل تاریخ کے اہم شخصیات میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔''


سن 2014 میں روس کی جانب سے کریمیا کو روس میں ضم کرنے کے بعد ایک خاتون جس نے اپنی چھاتی پر 'کِل پوٹن' لکھا ہوا تھا نے پوٹن کے مجسمے پر چاقو سے وار کر کے اس مجسمے کے سر کو کچل دیا تھا۔

پوٹن نے چوبیس فروری کو اپنے پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کر دیا تھا۔اس دوران اب تک سیکنڑوں یوکرینی فوجی اور عام شہریوں کی ہلاکتوں کی اطلاع ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔