بلوچستان، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم اور منتشر اہداف
صوبہ بلوچستان میں ان دنوں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے۔ تاہم سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی سیاست میں مرکزی کردار کی حامل سیاسی جماعتوں کا بلوچستان میں فرضی دعوؤں سے کچھ نہیں ہوگا۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے بیک وقت صوبے میں عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف ان کی بیٹی مریم نواز اور پیپلز پارٹی کے سربراہ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سمیت دیگر مرکزی قائدین کی بلوچستان آمد کے موقع پر عوامی پزیرائی کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں ملتے جلتے تاثرات سامنے آرہے ہیں۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی قیادت کے حالیہ دوروں کے موقع پر اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھی جانے والی سابقہ حکمران جماعت، بلوچستان عوامی پارٹی بھی تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ بی اے پی کی قیادت کا بڑا حصہ ن لیگ جبکہ دوسرا اور قدرے چھوٹا حصہ، پیپلز پارٹی میں شامل ہوا ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ، اور صوبے کے سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے بھی دوبارہ ن لیگ میں شمولیت اختیار کی ہے جبکہ اس پارٹی کے بانی رہنماؤں میں شامل، سعید ہاشمی کے بیٹے حسنین ہاشمی نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں صوبے کے سینئر سیاستدانوں اور قبائلی عمائدین کی شمولیت سے دونوں پارٹیاں کی ساکھ میں بہتری ممکن ہے تاہم انتخابات میں ان کی کامیابی کا انحصار اس بار بھی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر منحصر ہو گا۔ اسلام آباد میں مقیم سیاسی امور کے سینئر تجزیہ کار محسن رضا خان کہتے ہیں کہ بلوچستان کے سیاسی حالات روایتی نعروں کے برعکس یکسر تبدیل ہوتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''اس وقت اس تمام سیاسی پس منظر کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایک بات تو وثوق کے ساتھ کی جا سکتی ہے کہ آنے والے انتخابات میں سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگا۔ مسلم لیگ ن اس بار بلوچستان میں واضح اکثریت کے ساتھ دیکھی جارہی ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہورہا ہے کہ عام انتخابات میں بلوچستان کی مخلوط حکومت بھی ن لیگ کی قیادت میں بنے گی ۔ صوبے کے الیکٹیبلز اور قبائلی عمائدین کی واضح اکثریت کے ساتھ ن لیگ میں شمولیت سے پارٹی کی قومی سیاست پر عوامی اعتماد بھی بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔‘‘
محسن رضا خان کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کا غیرجانبدار کردار بہت اہم ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے لیے آنے والے انتخابات میں کوئی گنجائش دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''بلوچستان کی سیاست میں اہم مقام رکھنے والے لوگوں کی پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں شمولیت واضح کرتی ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے بیانیے اب بھی عوام میں مقبول ہیں۔ اس معاملے میں یہ امر بھی بہت اہم ہے کہ مسلم لیگ ن نے اس بار بلوچستان میں کئی ایسے سیاسی رہنماؤں کو جماعت میں شمولیت کا موقع نہیں دیا جن کی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے تھے۔ ان رہنماؤں میں صوبے کے سابق وزیراعلیٰ، نواب ثناء اللہ زہری اور سابق کور کمانڈر ، لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ بھی شامل ہیں۔
بعض ناقدین نے ماضی میں بننے والے سیاسی اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں مسلم لیگ ن کے کردار پر بھی کئی سوالات اٹھائے ہیں ۔ناقدین کہتے ہیں سابقہ حکومت میں ن لیگ کے عملی کردار نے پارٹی کے بیانیے کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم سابق سینیٹر اور سینئر سیاستدان، سحر کامران کہتی ہیں کہ بلوچستان میں سیاسی جماعتوں کی کامیابی کا انحصار ان کے عملی کردار پر منحصر ہے ۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''اس تمام صورتحال کو اگر زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کامیابی عملی کردار سے ہی یقینی ہوسکتی ہے فرضی نعروں سے نہیں۔ پیپلز پارٹی نے کوئٹہ میں اس بار یوم تاسیس کے موقع پر جو تاریخی جلسہ منعقد کیا ہے اس میں عوام کی شمولیت نے ہر چیز واضح کردی ہے۔ سابقہ دور میں جو پالیسیاں رہی ہیں ان پر اٹھنے والے اعتراضات اگر دور کیے جاتے تو آج صورتحال اس طرح نہیں ہوتی۔ عوامی حقوق کے دعودیداروں کو حقیقی معنوں میں عوام کے مفاد کا خیال رکھنا ہوگا۔‘‘
سحر کامران کا کہنا تھا کہ عوام میں بڑھتے ہوئے سیاسی شعور نے مستقبل کی سیاست کے لیے نئی راہوں کا تعین کیا ہے ان کے بقول، ''ن لیگ کی پالیسیوں پر اسی پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے بھی کئی بار تنقید کی ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ حالات میں بہتری کے لیے غلطیوں سے سبق حاصل کیا جاتا لیکن یہ معاملات نظرانداز کیے گئے ۔آنے والے دنوں میں بلوچستان میں جو بھی حکومت بنے گی اس میں عوامی پزیرائی کا کردار بہت اہم ہوگا۔جمہوری روایات اس امر کی متقاضی ہیں کہ نمائندگی کا حق ایسی جماعت کو دیا جائے جس نے ماضی میں عملی طور پر اپنے کردار سے نمائندگی کا حق ادا کیا ہو۔‘‘
حالیہ دورہ کوئٹہ کے دوران ن لیگ میں بڑے پیمانے پر سیاسی رہنماؤں کی شمولیت کو پارٹی قیادت نے بھی بلوچستان کے حوالے سے مثبت پالیسیوں سے تعبیر کیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کےسابق اسپیکر اور ن لیگ کے رہنماء جمال شاہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے کے لیے مسلم لیگ نے ہمیشہ عملی کردار ادا کیا ہے ۔ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان کے حالات ماضی کی طرح نہیں ہیں۔ آج یہاں کا ووٹر زمینی حقائق سے بخوبی واقف ہے اور اپنے لیے بہتری کا راستہ منتخب کرسکتا ہے۔ میرے خیال میں ن لیگ میں جس طرح سیاسی قائدین شامل ہورہے ہیں وہ پارٹی پر ان کے اعتماد ظاہر کرتا ہے۔ آج بھی کئی اہم رہنماء ن لیگ میں شامل ہوئے ہیں۔‘‘
جمال شال کا کہنا تھا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ن لیگ سیاسی معمالات میں مثبت رجحانات کو تقویت دینا چاہتی ہے اور مستقبل میں بھی اسی سوچ کے تحت اقدامات کیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ایسے بلوچ قوم پرست رہنماؤں نے بھی شمولیت اختیار کی ہے جو کہ ماضی میں ہمیشہ مذکورہ سیاسی جماعتوں کو بلوچستان کی محرومیوں کا ذمہ دار ٹہراتے رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔