پوپ فرانسس کا دورہ عراق: ‘مینار اور گرجا گھر کے گھنٹے کی تاریخی ملاقات‘
عراق میں پوپ کے خیر مقدم کے لیے غیر معمولی تیاریاں کی گئی ہیں۔ عراقی وزیر خارجہ نے اسے پوپ کی طرف سے ‘امن اور رواداری کا بہترین پیغام‘ قرار دیا ہے۔
پوپ فرانسس کا مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ اور عشروں سے جنگ کے شکار ملک عراق کا یہ پہلا دورہ ہے، جو موجودہ کورونا وبا کے تناظر میں بھی غیر معمولی سمجھا جا رہا ہے۔ پوپ فرانسس کے اس تین روزہ دورے کے اہم مقاصد میں سے ایک عراق کی کرسچن آبادی کا اعتماد بحال کرتے ہوئے سالوں سے اس ملک میں ظلم و جبر اور بد امنی کے شکار انسانوں کے مابین رواداری اور بھائی چارگی کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔ عراق میں گزشتہ دہائیوں سے جاری جنگ اور مختلف مذاہب و مسالک سے تعلق رکھنے والے گروپوں کے تعاقب اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کا سلسلہ اس ملک کی کرسچین آبادی میں تیزی سے کمی کا سبب بھی بنا ہے۔
پوپ کا استقبال
کورونا وبا کی موجودہ خطرناک صورتحال اور عراق میں آئے دن کے دہشت گردانہ حملوں کے باوجود پوپ فرانسس نے عراق کے دورے کا جو فیصلہ کیا وہ اس ملک کی کرسچن آبادی کی حوصلہ افزائی کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ پوپ عراق میں مقامی مسیحی آبادی اور مسلمانوں کو مل جل کر امن قائم کرنے اور جنگ سے تباہ حال اس معاشرے کی تعمیر نو میں حصہ لینے کی ترغیب دلانا چاہتے ہیں۔ عراقی دارالحکومت میں پوپ کے استقبال کی خصوصی تیاریاں کی گئی ہیں۔ جگہ جگہ بینرز اور پوسٹرز پوپ کے استقبال کے لیے آویزاں کیے گئے ہیں۔ بل بورڈز پر پوپ کی تصاویر کے ساتھ درج ہے،'' ہم سب بھائی ہیں۔‘‘
مسیحی برادری کی تیاریاں
ایک بزرگ عراقی مسیحی خاتون کرجیہ بقتر نے اپنے ضعیف ہاتھوں سے سنہری دھاگے کی کشیدہ کاری کر کے ایک 'دعائیہ شال‘ تیار کی ہے جو وہ پوپ فرانسس کو پیش کرنے جا رہی ہیں۔ اس خاتون کا تعلق شمالی عراق کے ایک قصبے قراقش سے ہے جہاں 2014ء میں داعش یا 'آئی ایس‘ نے دہشت گردانہ کارروائیاں کی تھیں اور اس قدیم عراقی ثقافتی علاقے کو تباہ کر دیا تھا۔ قراقش کے ایک قدیم کلیسا 'الطاہرہ چرچ‘‘ کے پادری عمار یاقو نے دو میٹر طویل اس شال کو ڈیزائن کیا ہے اور کرجیہ بقتر نے ایک اور خاتون ادھرا دبول کے ساتھ مل کر اس پر کشیدہ کاری کی ہے۔
پادری یاقو نے اس شال کی اہمیت کے بارے میں کہا،'' اس پر یسوع مسیح اور بی بی مریم کی دعائیں اُسی زبان میں جو حضرت عیسیٰ بولا کرتے تھے، کڑھائی کے ذریعہ درج کی گئی ہیں۔‘‘ یہ اس علاقے کی قدیم مقامی بولی 'سریانی‘ ہے۔ جو آج بھی قراقش میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ مسیحی برادری اس طرح پوپ کے اس تاریخی دورے پر اپنی بھرپور محبت اور عقیدت کا اظہار اس علامتی تحفے کو پیش کرتے ہوئے کرے گی۔
سیاسی اہمیت
پوپ فرانسس کا یہ دورہ مشرق وسطیٰ کے خطے اور بڑی حد تک عالمی سیاسی پس منظر میں بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے ایک بیان میں کہا کہ عراقی باشندے پوپ کے اس دورے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ وہ پاپائے روم کی طرف سے ''امن اور رواداری کے پیغام‘‘ کی علامت سمجھے جانے والے اس دورے سے بہت خوش ہیں۔ عراقی وزیر نے مزید کہا،'' پوپ کا یہ دورہ میناروں اور کلیسا کے گھنٹوں کی ایک تاریخی ملاقات ہے۔‘‘
پوپ فرانسس کے اس تین روزہ دورے کا نقطہ عروج ہفتہ 6 مارچ کو اُن کی عراق اور شیعہ مسلک کے ماننے والوں کے لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل شخصیت اور شیعہ عالم آیت اللہ السیستانی کے ساتھ نجی ملاقات ہو گا۔ السیستانی مذہبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کی ایک اہم سیاسی شخصیت کے طور پر بھی غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔
سکیورٹی کی صورتحال
.پوپ فرانسس اور ان کے وفد کی سکیورٹی کی تمام تر ذمہ داری عراقی فورسز کو دی گئی ہے۔ پوپ کو غالباً ایک بکتر بند گاڑی میں عراق کے مختلف علاقوں کا دورہ کروایا جائے گا۔
ایک سال تک لاک ڈاؤن میں رہنے کے بعد پاپائے روم نے سب سے پہلے عراق جانے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ عالمی برادری کی توجہ عراق کے شمالی حصے میں آباد مسیحی برادری کے مصائب کی طرف مبذول کرا سکیں۔ اس برادری کو 2014 ء سے 2017 ء تک اسلامک اسٹیٹ نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا، اس شدت پسندی کی وجہ سے مسیحی برادری کے زیادہ تر افراد اس علاقے کو چھوڑ چُکے ہیں۔ مسیحییوں کے لیے یہ مقدس علاقہ ہے جو حضرت عیسیٰ کے دور سے چلا آ رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔