ترکی: مذاق کرنے پر پاپ اسٹار کی گرفتاری، حکومت تنقید کی زد میں
ترکی کی معروف گلوکارہ گلشن کو مذہبی مدارس کا مذاق اڑانے کے کئی ماہ بعد گرفتار کر لیا گیا۔ اس مسئلے پر حکومت اپنے سخت رویے کی وجہ سے ہر طرف سے تنقید کی زد میں ہے۔
ترکی کی معروف پاپ اسٹار گلشن نے چند ماہ قبل مذہبی مدرسے کے بارے میں ایک مذاق کیا تھا، جس کے لیے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم اس سخت کارروائی پر اپوزیشن کے ساتھ ہی حکومت کے بعض حامیوں نے بھی شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
گرفتاری کے بعد گلوکارہ کو 24 اگست جمعرات کے روز جیل بھیج دیا گیا تھا اور ان کا مقدمہ اب عدالت میں زیر سماعت ہے۔
گزشتہ اپریل میں پاپ اسٹار نے اپنے ایک شو کے دوران اسٹیج پر بڑے ہی مزاحیہ انداز میں ایک مذاق کیا، جسے حکومت کے حامی ایک قدامت پسند میڈیا ادارے نے نشر کرنے کے ساتھ ہی ان پر نفرت کو ہوا دینے کا الزام لگایا۔
تاہم گرفتاری کے بعد بڑی تعداد میں گلوکارہ کی حمایت میں لوگ سامنے آئے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے انہیں ان کی آزاد خیالی اور ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی حمایت کرنے کی وجہ سے بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
ترکی کے ایک معروف پاپ اسٹار ترخان، نے جمعے کے روز گرفتار شدہ فنکارہ کی حمایت میں آواز اٹھائی۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’ہمارا قانونی نظام، جو بدعنوانی، چوری، قانون شکنی کرنے والوں اور فطرت کا قتل عام کرنے والوں پر اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔‘‘
’’جانوروں کو مارنے والوں اور ان لوگوں سے بھی نظریں چار نہیں کرتا، جو اپنے متعصبانہ خیالات کے ذریعے مذہب اور معاشرے کو پولرائز کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تاہم اسی نظام نے اپنے ایک تیز وار سے گلشن کو گرفتار کر لیا ہے۔‘‘
مذاق کیا تھا، جس کی وجہ سے گرفتاری ہوئی؟
یہ واقعہ استنبول میں ایک کنسرٹ کے دوران کا ہے جب 46 سالہ گلوکارہ نے اپنے میوزک بینڈ کے ایک موسیقار کے بارے میں طنز کیا۔ گلوکارہ نے اپنے ساتھی موسیقار کا مذاق اڑتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک مذہبی مدرسے میں پڑھتے تھے، اور ان کی تمام ’’گمراہی‘‘ کا ذریعہ بھی وہی ہے۔
اس حوالے سے معروف اخبار صباح کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی، جس میں وہ بڑے ہی مزاحیہ انداز میں اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’پہلے وہ امام حاتم اسکول میں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ ان کی تمام کج روی بھی وہیں سے آتی ہے۔‘‘
حکومت کے حامی میڈیا ادارے کا مزید کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی گلوکارہ نے ’’اسٹیج پر انتہائی مختصر لباس میں ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کا پرچم لہرایا تھا‘‘ اور اس کی وجہ سے پہلے بھی ان پر تنقید کی گئی تھی۔
ان کے مذاق سے متعلق ویڈیو سامنے آنے کے بعد حکمران قدامت پسند اے کے پارٹی کے ارکان اور کئی وزراء نے بھی غم و غصے کا اظہار کیا۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن سمیت پارٹی کے بہت سے ارکان نے امام حاتم نامی اسکولوں میں ہی تعلیم حاصل کی ہے۔
وزیر انصاف فقیر بزداغ نے اپنے رد عمل میں ایک ٹویٹ میں لکھا، ’’معاشرے کے ایک حصے کو دوسرے کے خلاف بھڑکانا، فنکار ہونے کی آڑ میں نفرت انگیز اور امتیازی زبان استعمال کرنا آرٹ کی سب سے بڑی توہین ہے۔‘‘
حکومت پر نکتہ چینی
حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ آئندہ دس ماہ میں انتخابات ہونے والے ہیں اور اسی تناظر میں فنکارہ کی یہ گرفتاری، قدامت پسندوں اور مذہبی طبقوں کی حمایت حاصل کرنے کی ایک مذموم سیاسی چال ہے۔ حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کے رہنما کمال کلیک دار اوگلو نے گلوکارہ گلشن کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
حتیٰ کہ حکومت کے بعض حامی کچھ کالم نگاروں نے بھی اس اقدام پر تنقید کی ہے۔ محمت برلاس نے صباح میں لکھا، ’’کیا ہم ہر بکواس کرنے والے شخص کو مقدمے کی سماعت تک جیل میں ڈال دیں گے؟ معاشرے کو موقع دیں کہ وہ خود ہی اس کو سزا دے۔‘‘
حالیہ برسوں میں ترکی کی حکومت پر تنقید کرنے والی کئی سرکردہ شخصیات بھی جیل میں بند ہیں۔ اس میں انسانی حقوق کے کارکن عثمان کاوالا اور ترقی پسند، کرد نواز سیاسی رہنما صلاحتین دیمیرتاس بھی شامل ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔