آدم خور بھارتی شیرنی کو پکڑنے کے لیے کیلوِن کلائن کا پرفیوم
تیرہ انسانوں کی قاتل ایک آدم خور شیرنی کو پکڑنے کے لیے کیلوِن کلائن نامی کمپنی کا ایک پرفیوم استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اب تک اس شیرنی کو پکڑنے یا ہلاک کر دینے کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔
بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی سے جمعرات گیارہ اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ خونخوار شیرنی اب تک مغربی بھارتی ریاست مہاراشٹر میں 13 افراد کی ہلاکت کا سبب بن چکی ہے اور اسے ہلاک کر دینے یا زندہ پکڑ لینے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے ایک باقاعدہ مہم ایک ماہ قبل شروع کی گئی تھی۔
مہاراشٹر کے محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ اہلکار اے کے مشرا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ملکی رینجرز کے دستے اس گوشت خور جنگلی جانور کو زندہ یا مردہ حالت میں قابو کر لینے کے لیے گشتی ٹیموں، انفرا ریڈ کمیروں اور ہاتھیوں سمیت کئی طریقے استعمال کر چکے ہیں، جو سب کے سب بے سود ثابت ہوئے۔
اب لیکن اس شیرنی کو پکڑنے کے لیے کیلوِن کلائن نامی کمپنی کا تیار کردہ ایک پرفیوم استعمال کرنے کی تجویز اس لیے زیر غور ہے کہ چند ماہرین نے ریاستی محکمہ جنگلات کو بتایا تھا کہ اس شیرنی کو کیلوِن کلائن کی Obsession نامی خوشبو استعمال کرتے ہوئے دام میں لایا جا سکتا ہے۔ بھارتی حکام نے اس امکان کی وضاحت اس طرح کی کہ 2013ء میں امریکی ماہرین نے غیر متوقع طور پر دریافت کیا تھا کہ شیروں، چیتوں اور ٹائیگرز جیسے گوشت خور جنگلی جانوروں کو مردوں کے لیے بنایا گیا ’اوبسَیشن‘ نامی پرفیوم استعمال کرتے ہوئے چکمہ دے کر زیر کیا جا سکتا ہے۔
ایسا اس وجہ سے ممکن ہو سکتا ہے کہ اس پرفیوم کی تیاری میں مصنوعی طور پر بنایا گیا ویسا ہی مشک استعمال ہوتا ہے، جیسا شیروں کے جسم میں پایا جاتا ہے اور شیرنیوں کے لیے جسمانی اور جذباتی کشش کا باعث ہوتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق اَونی (مہاراشٹر کی صوبائی زبان میں ’زمین‘) نامی اس شیرنی کو پکڑنے کے لیے یہ طریقہ اس مثال کی وجہ سے بھی کامیاب ثابت ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل جنوبی بھارتی ریاست تامل ناڈو میں بھی ایک ٹائیگر کو پکڑنے کے لیے یہی پرفیوم استعمال کیا گیا تھا۔
بھارتی رینجرز اب اس شیرنی کی جان کے پیچھے ہیں لیکن جنگلی حیات کی حفاظت کے لیے سرگرم کارکنوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں ایک اپیل بھی دائر کر دی تھی کہ رینجرز کو اس شیرنی کو ہلاک کرنے سے روکا جائے۔ عدالت نے تاہم گزشتہ ماہ یہ اپیل مسترد کر دی تھی۔
مہاراشٹر کے صوبائی حکام کے مطابق اَونی نہ صرف پچھلے چند ماہ کے دوران اس ریاست میں 13 انسانوں کی موت کی وجہ بن چکی ہے بلکہ یہ شبہ بھی ہے کہ یہی شیرنی 2016ء اور 2017ء میں کم از کم چھ دیگر انسانوں کو بھی چیر پھاڑ کر کھا گئی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔