مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی ہوا، نشہ اب اتنا بڑا مسئلہ نہیں

مشرق وسطیٰ میں نشے کو برداشت نہیں کیا جاتا مگر حالیہ برسوں میں اس رویے میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر گانجے کے نشہ پر ہنسی مذاق پہلے کے مقابلے میں زیادہ برداشت کیا جانے لگا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی ہوا، نشہ اب اتنا بڑا مسئلہ نہیں
مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی ہوا، نشہ اب اتنا بڑا مسئلہ نہیں
user

Dw

یہ کچھ برس قبل کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کافی مرتبہ دیکھی گئی۔ اس ویڈیو میں مصری صدر عبدالفاتح السیسی ملکی فوجیوں کے ساتھ ایک ہال میں بیٹھے ہنسی مذاق کر رہے ہیں اور بے قابو ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ سن 2017 کی اس ویڈیو پوسٹ کے نیچے لکھا ہے، 'السیسی اسٹونر ہیں‘، جس سے بظاہر مراد یہ ہے کہ السیسی گانجا استعمال کرتے ہیں۔ ایسے مذاق کو 'اسٹونر ہیومر‘ کہا جاتا ہے اور عربی زبان کے کئی سوشل میڈیا پیجز پر اب ایسا ہنسی مذاق کثرت سے پایا جاتا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے میں خلیجی ریاستوں میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں سوشل میڈیا پر لوگوں نے گانجے سے لطف اندوز ہوتے وقت کی ویڈیوز پوسٹ کی ہیں۔ ان میں سے کچھ کو پولیس نے گرفتار بھی کیا۔ دبئی کے انفلوئنسر اور ماڈل عمر برکان الگالا کو ایک لائیو اسٹریم کے دوران گانجا استعمال کرنے پر امارات سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔


مگر تاریخی پس منظر پر نگاہ ڈالی جائے تو منشیات ہمیشہ ہی سے مشرق وسطی کی ثقافت کا حصہ رہی ہے۔ یونیورسٹی آف ایکسٹر میں میڈیکل ہیومینٹیز کے لیکچرار مزیار غیابی کا کہنا ہے، ''یہ سچ ہے کہ لوگوں نے تاریخی طور پر نشے کی مذمت کی، چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں یہ معاشرے کا حصہ نہ تھا۔‘‘

کینابس یا گانجا صدیوں سے مشرق وسطی کی ثقافت کا حصہ رہا ہے۔ بارہویں صدی میں چند صوفی اس کا استعمال کیا کرتے تھے۔


جرمنی میں مقیم 32 سالہ محمود بتاتے ہیں، ''گانجے جیسی چیزوں کے بارے میں نوجوانوں کا رویہ یقینی طور پر تبدیل ہو رہا ہے۔‘‘ محمود نے بتایا کہ وہ اپنے آبائی شہر دمشق میں اپنے دوستوں کے ہمراہ چرس پیتا تھا اور ایمفیٹامین کی گولیاں کھاتا تھا-ان گولیوں کو اکثر غریب آدمی کی کوکین کہا جاتا ہے۔ لیکن محمود کا کہنا ہے کہ صرف اس کے قریبی دوست ہی اس عادت کے بارے میں جانتے تھے۔ اس کا خیال ہے کہ اب شہروں سے تعلق رکھنے نوجوان ایسی چیزوں کے بارے میں زیادہ نرم رویہ رکھتے ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ رویے کب بدلے، محمود نے مسکرا کر جواب دیا، ''انٹرنیٹ کے آنے کے بعد سے۔‘‘

گزشتہ برس Drugs Behind the Veil of Islam: A View of Saudi Youth کے عنوان سے ایک مطالعہ کرایا گیا۔ 18 سعودی یونیوسٹیوں سے حاصل کردہ ڈیٹا کے بعد محققین اس نتیجے پر پہنچے کہ سعودی نوجوان گانجے کے تفریح کے لیے استعمال میں زیادہ دلچسپی لینے لگے ہیں۔


بیروت میں قائم 'مڈل ایسٹ اینڈ نارتھ افریقہ ہارم ریڈکشن ایسوسی ایشن‘ یا کی ڈائریکٹر ایلی عراج نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سوشل میڈیا کے ساتھ اب سب کچھ زیادہ کھلا ہے۔ نوجوان نسل منشیات اور اس کے استعمال کے بارے میں زیادہ جانتی ہے۔‘‘

یہ جاننا ناممکن ہے کہ آیا آن لائن رویوں میں یہ تبدیلیاں حقیقی زندگی میں منشیات کے استعمال میں اضافے کی عکاسی کرتی ہے۔ بنیادی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ اس موضوع پر معتبر اعداد و شمار موجود نہیں۔


اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (UNODC) کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مشرق وسطی کا بہت کم ڈیٹا موجود ہے اور اس لیے ہم خطے میں منشیات کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔