محبت نگر: ہیر کے مزار پر ننگے پاؤں حاضری دینے والے عاشق
جھنگ شہر کی سڑکوں پر چلتے ہوئے نومبر کے سورج کی دھوپ سردیوں کی آمد کا پتہ دے رہی تھی۔ میرے ساتھ جھنگ کا رہائشی میرا کلاس فیلو عبدالجبار خان بھی تھا، جو میرے لیے گائیڈ کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔
ہم سٹیڈیم کے پاس سے ہوتے ہوئے ایک تنگ گلی سے گزرے تو ایک چھوٹا سا قبرستان نظر آیا، تھوڑا سا آگے گئے تو کھلونوں اور سیاحوں کی دلچسپی کی مصنوعات والی دکانوں کا ایک چھوٹا سا بازار تھا۔ ایک دکان پر مٹی سے بنے ہوئے جانوروں کی شکل والے کھلونے موجود تھے۔ کھلونوں میں ایک ایسی جوڑی بھی تھی، جو محبت کا اظہار کر رہی تھی۔ میری نظر اُسی کھلونے پر ٹِکی رہی، ایک لمحے کے لیے تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں کسی محبت نگر میں داخل ہونے والا ہوں۔
بازار سے گزر کر آگے گئے تو سامنے سفید ٹائلوں سے مزین ایک چوکور کمرہ نظر آیا، یہی مائی ہیر کا مزار تھا۔ دو نوجوان لڑکے مزار کے دروازے پر نظر آئے۔ اس مزار پر زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہی آتے ہیں۔ بعض لوگوں نے بتایا کہ کئی سچے عاشق اپنی گمشدہ محبتوں کی تلاش میں دعا مانگنے یا منت ماننے کے لیے بھی اس مزار پر حاضری دیتے ہیں۔
ہیر رانجھا کی الم ناک لیکن رومانوی داستان جنوبی ایشیا کی شہرہ آفاق داستانوں میں اہم مقام رکھتی ہے۔ اس کہانی کو بہت سے لوگوں نے تحریر کیا ہے لیکن وارث شاہ کی تحریر کردہ ہیر رانجھا کو بہت شہرت ملی۔ اس کہانی کے متن کے بارے میں مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر اس کہانی میں چھتیس کردار تھے لیکن ان میں تین کردار ہیر، رانجھا اور کیدو بہت زیادہ مشہور ہیں۔
مائی ہیر کے مزار پر لوگ ننگے پاؤں حاضری دیتے ہیں۔ ہم نے بھی جوتے اتارے اور سیڑھیاں چڑھ کر مزار کے صحن میں آ گئے۔ صحن میں ہارمونیم تھامے ایک شخص با آواز بلند ہیر گا رہا تھا۔ قبرستان کی خاموشی میں اس کی آواز عجب سوز لیے ہوئے تھی، میرا دل کیا کہ کچھ دیر کے لیے سمے کا بہتا دریا رک جائے اور میں اس آواز کے سوز کو اپنے اندر جذب کر لوں۔
ہیر کے مزار کی بیرونی دیوار پر ایک تختی لگی ہے، جس پر دربار عاشق صادق و میاں رانجھا تحریر ہے، وصال کی تاریخ سن 876 ہجری ہے۔ لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ مرتے تو وہ ہیں، جنہیں کوئی یاد کرنے والا نہ ہو، ہیر اور رانجھا تو آج بھی محبت کا استعارہ ہیں۔
بعدازاں جھنگ یونیورسٹی کی وائس چانسلر اور پنجابی ادب کی ماہر پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمان نے ہمیں بتایا کہ ہیر رانجھا کی متعدد داستانوں میں ہیر کو ایک پیار کرنے والی، ایک باہمت اور بہادر لڑکی کے طور پر دکھایا گیا ہے جبکہ رانجھے کا ذکر ایک محبوب کے طور پر ملتا ہے۔ مائی ہیر کے مزار کے نگران عابد شاہ نے بتایا کہ محبت کی اس شہرہ آفاق داستان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں ہمیشہ ہیر کا نام پہلے آتا ہے اور رانجھے کا ذکر اس کے بعد ہی ہوتا ہے۔
مزار کے اندر گئے تو سرخ رنگ کی چادروں سے ڈھکی ایک قبر نظر آئی اور کتبے پر لکھی گئی تحریر سے معلوم ہوا کہ یہاں ہیر اور رانجھا دونوں ہی مدفون ہیں۔ وہاں موجود مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہیر اور رانجھا اس جگہ کے پاس ایک ٹیلے پر بیٹھے تھے کہ ہیر کے گھر والوں نے آ کر حملہ کر دیا اور وہاں معجزانہ طور پر زمین پھٹ گئی اور وہ دونوں زیر زمین چلے گئے۔ لیکن سنجیدہ مورخین اس روایت سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق ہیر اور رانجھے کا انتقال دو الگ الگ مقامات پر ہوا تھا۔
قبر کے ایک کنارے پر دولہا کے سر پر شادی والے دن پہنائی جانے والی ایک عروسی ٹوپی 'کلہ‘ رکھی ہوئی تھی۔ ساتھ ایک جھولا نما لکڑی کا ماڈل پڑا ہوا تھا۔ قبر پر گلاب کی سوکھی پتیوں کا چھوٹا سا ڈھیر موجود تھا، دوسرے کنارے پر لوگوں کی طرف سے چندے کے لیے ایک کھلی ٹوکری رکھی گئی تھی۔
قبر کے قریب ہی پڑے ہوئے ایک سیف کے اوپر نمک رکھا گیا ہے، جس کو بعض لوگ تبرک کے طور پر چکھتے ہیں۔ ساتھ ہی دھاگے پڑے ہیں، جن کو مراد پوری ہونے کے لیے کلائی پر باندھا جاتا ہے، مزاروں پر دھاگے باندھنے کی رسم یہاں بھی ہے۔
اس مزار کی کھڑکی پر گرہیں باندھنے والے بھی آتے ہیں اور من کی مراد پوری ہو جائے تو گرہیں کھولنے اور چادر چڑھانے والے عقیدت مندوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک مزار کے در و دیوار خاصے شکستہ ہو چکے تھے اور ان پر آنے جانے والے لوگ اپنے عاشقوں اور معشوقوں کے نام لکھا کرتے تھے لیکن کسی نے بعدازاں مزار کے در و دیوار کو رنگ و روغن کروا دیا ہے۔
ہیر کے مزار کے اندرونی حصے میں قبر کے چاروں طرف آرائشی لڑیاں لٹک رہی تھیں، دیوار پر گھڑی بھی نظر آ رہی تھی۔ ہر سال پانچ محرم کو مائی ہیر کا عرس ہوتا ہے، جو پورا مہینہ جاری رہتا ہے اور عرس کے موقع پر خاصی رونق ہوتی ہے، دور دراز سے عاشق مائی ہیر کے مزار پر محبت کی دعائیں مانگنے آتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں ایک درخت کے نیچے کچھ لوگ زمین پر بیٹھے تھے اور احاطے کے ساتھ ہی ایک مسجد ہے۔
پوچھنے پر بعض لوگوں نے بتایا کہ مزار کی حالت اچھی نہیں ہے روزانہ چند ایک لوگ ہی یہاں آتے ہیں۔ ہر طرف گرد و غبار ہے، سہولتوں کا فقدان ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اسے بہت برے طریقے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ متعلقہ محکموں کے لوگ اس مزار کے آس پاس کے علاقوں کو بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے۔
ڈاکٹر نبیلہ رحمان نے بتایا کہ ہیر رانجھے کی داستان کا شمار پنجاب کے ادب عالیہ میں ہوتا ہے، اس کا ترجمہ فارسی، اردو، سندھی اور انگریزی سمیت کئی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق مائی ہیر کے مزار کو ایک سیاحتی مقام کے طور پر ڈیویلپ کر کے ملک کا سافٹ امیج کو اجاگر کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
دانشور خالد محمود رسول کہتے ہیں کہ ہیر خوانی ہمارے دیہی کلچر کا ایک اہم حصہ رہی ہے۔ پنجاب کے میلوں ٹھیلوں اور اہم تقریبات میں ہیر سنانے کی روایت موجود رہی ہے لیکن جیسے پنجابی نظر انداز ہوئی، ویسے ہی ہیر رانجھا کی داستان بھی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔