نوجوان پاکستان میں اپنے مستقبل کو محفوظ کیوں نہیں سمجھتے؟

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق گزشتہ برس آٹھ لاکھ بتیس ہزار سے زائد پاکستانی بہتر روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑ کر بیرونی ممالک گئے ۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر بشکریہ آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر بشکریہ آئی اے این ایس

user

Dw

ماہرین کے مطابق یہ بالخصوص نوجوانوں کا پاکستان کی ابتر سیاسی و معاشی صورتحال سے مایوسی کا اظہار ہے، جہاں انہیں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا۔ ملکی صورتحال سے نوجوانوں کی مایوسی کی ایک جھلک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے حالیہ سروے میں بھی نظر آتی ہے۔ اس سروے کے مطابق 37 فیصد پاکستانی ملک چھوڑ کر باہر منتقل ہونا چاہتے ہیں، جن میں 15 سے 24 سال کے نوجوان مردوں کی تعداد 62 فیصد ہے۔

آخر اتنے بڑے پیمانے پر ملک سے ہجرت کی وجوہات کیا ہیں؟ اس کے ملک اور خاندانوں کی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور ملک میں روزگار کے بہتر مواقع کیسے پیدا کیے جا سکتے ہیں؟ ڈی ڈبلیو اردو نے نقل مکانی کرنے والے نوجوانوں اور سماجی و معاشی ماہرین سے جاننے کی کوشش کی ہے۔


’تقریباً 70 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں‘

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا اتنے بڑے پیمانے پر ہجرت کی سب سے بڑی وجہ ''بے روزگاری‘‘ کو قرار دیتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”پاکستان افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہے لیکن مقامی منڈی میں گنجائش نہیں کہ اتنی بڑی افرادی قوت کو کھپا سکے۔ صورتحال یہ ہے کہ تقریباً 70 لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ نوجوان تیزی سے ایسے ممالک کا رخ کر رہے، جہاں ملازمتوں کے بہتر مواقع میسر ہوں‘‘۔

پولیٹیکل سائنس کے استاد اور مزدور کسان پارٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر تیمور رحمان اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”پوری دنیا میں معیار زندگی بہتر ہو رہا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ملک کی سیاسی و معاشی فضا ناقابل برداشت حد تک ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں نوجوان ملازمت کے حوالے سے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں، وہ ایسے ملک میں کیوں رہیں گے، جہاں انہیں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا‘‘۔


مہنگائی اور معمولی تنخواہیں

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ برس ملک چھوڑنے والے افراد میں ہزاروں اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹرز، انجینئرز اور ٹیکنالوجی کے ماہرین بھی شامل تھے۔

ڈاکٹر عائشہ ان 2464 ڈاکٹروں میں شامل ہیں، جنہوں نے گزشتہ برس پاکستان چھوڑ دیا تھا۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”میں نے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے ڈرماٹالوجی میں ڈگری حاصل کی، جس پر تقریباً ایک کروڑ روپیہ خرچ ہوا۔ مجھے احساس تھا کہ میرے والدین کتنی مشکل سے میری فیسیں پوری کر رہے ہیں۔ میں میڈیکل مکمل کرنے کے بعد انہیں اور اپنے آپ کو ایک پرسکون زندگی دینا چاہتی تھی۔ مگر مارکیٹ میں قدم رکھا تو بدترین ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑا"۔


وہ بتاتی ہیں، ”ہمارے پورے ضلع میں ڈرماٹالوجی کی سرکاری طور پر ایک سیٹ تھی۔ ناامید ہو کر میں نے پرائیویٹ کلینکس کا رخ کیا۔ وہاں مشکل سے ایک جاب ملی، جس کا معاوضہ 50 ہزار تھا۔ میں نے حساب لگایا کہ میں اگلے 18 برس یہ ملازمت کرتی رہوں تو تب جا کر ان فیسوں کے پیسے وصول ہوں گے، جو میں پہلے ہی خرچ کر چکی ہوں۔ میں نے فوراً باہر جانے کا فیصلہ کیا۔ مجھے امریکہ میں آئے چار ماہ ہو چکے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں۔ یہاں میرا معاوضہ تین گنا زیادہ ہے‘‘۔

اقتصادی امور کے ماہر، سینئر بیوروکریٹ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس میں معاشیات کے استاد وقار شیرازی اس حوالے سے کہتے ہیں، ”روپے کی قدر بری طرح گری ہے، جس سے قوت خرید شدید متاثر ہوئی‘‘۔ وہ کہتے ہیں، ”پاکستان میں ورکر وافر مقدار میں میسر ہیں، اس لیے ان کا استحصال ہوتا ہے۔ اگر افراط زر نہ ہو تو کم تنخواہ بھی کافی ثابت ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف بیرون ملک معاوضہ ڈالر، یورو یا درھم میں ملتا ہے، جس سے خود بخود وہ کئی گنا زیادہ ہو جاتا ہے"۔


ملک کی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں، ”پاکستان میں نوجوان افرادی قوت بہت زیادہ ہے، اس لیے یہ ہجرت تشویش کی بات نہیں۔ جب وہ اپنے خاندانوں کو رقم بھیجتے ہیں تو اس سے نہ صرف ان کے اپنے گھر والوں کو بلکہ ملکی معیشت کو بھی فائدہ ہوتا ہے"۔ وقار شیرازی کہتے ہیں، ”جب ہمارے پاس برآمد کرنے کو اور کچھ ہے نہیں تو نوجوانوں ورکرز ہی سہی۔ مگر غیر ملکی ترسیلات زر کسی بھی طرح دیرپا معاشی استحکام نہیں لا سکتیں"۔

پاکستان میں روزگار کے بہتر مواقع کیسے پیدا کیے جا سکتے ہیں؟

ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں، ”زراعت اور صنعت کے شعبوں پر توجہ مرکوز نہ کی گئی تو پاکستان میں روزگار کا مسئلہ مزید سنگین صورتحال اختیار کر جائے گا۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم تک درآمد کرنا پڑ جاتی ہے۔ اگر زراعت کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا جائے تو نہ صرف معیشت مستحکم ہو گی بلکہ براہ راست نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی کھلیں گے۔ اسی طرح ایک فیکٹری لگنے سے ہزاروں افراد کو روزگار ملتا ہے"۔


وقار شیرازی کہتے ہیں، ”ہماری ملکی پالیسیوں اور توانائی کے بحرانوں نے ایسا سازگار ماحول فراہم نہیں کیا، جس میں صنعتی شعبے کی حوصلہ افزائی ہو۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ سیٹھ پیسہ رئیل سٹیٹ کے کاروبار میں لگانے لگا، جس سے پیسے کی گردش چند ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گئی اور روزگار کے مواقع پیدا نہ ہو سکے۔ ہمیں رئیل سٹیٹ سے صنعتی شعبے کی طرف رخ کرنا ہو گا تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد تک ثمرات پہنچیں"۔

ابتر سیاسی ماحول میں معاشی استحکام ممکن نہیں

معروف ترقی پسند سماجی دانشور عمار علی جان کہتے ہیں، ”نوجوانوں کے پاس انرجی اور خواب ہوتے ہیں، وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر انہیں اپنے ملک میں سازگار ماحول نہ ملے تو پھر وہ ایسی ملک کا انتخاب کرتے ہیں، جہاں بہتر مواقع میسر ہوں"۔


ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ”روزگار کے بہتر مواقع مضبوط معیشت کے بغیر ممکن نہیں اور مضبوط معیشت مستحکم سیاسی حالات کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیں سیاسی کلچر کو بہتر کرنا ہو گا تاکہ فیصلہ سازوں کی توانائیاں جوڑ توڑ اور عارضی مفادات کے بجائے مضبوط معیشت کی طرف مرکوز ہوں۔ اس سے نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع میسر آئیں گے، وہ عدم تحفظ کے احساس سے نکل کر ملک کی تعمیر و ترقی کی نئی بلندیوں سے ہم کنار کرائیں گے"۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔