گریمی ایوارڈ یافتہ پاکستانی گلوکارہ عروج آفتاب کا دورہ جرمنی
پاکستانی گلوکارہ عروج آفتاب نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان چیلنجز کا ذکر کیا، جو ایک بین الاقوامی اسٹار بننے کے سفر میں انہیں درپیش رہے۔
رواں سال کا ایک گریمی ایوارڈ پاکستانی گلوکارہ عروج آفتاب کو اپنے ملک کے عالمی شہرت یافتہ مرحوم گلوکار مہدی حسن کی ایک مشہور غزل پیش کرنے پر دیا گیا تھا۔
گریمی ایوارڈ حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی آرٹسٹ عروج آفتاب نے موسیقی کے شعبے میں کئی حدوں کو ختم کر دیا ہے۔ عروج آفتاب نے اپنے فنی سفر کے دوران درپیش چیلنجوں کے بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں ایسی موسیقی سننا چاہتی تھی، جو موسیقی کے ان آلات اور الفاظ سے مل کر تشکیل پائے، جن کی بطور نوجوان لاہور میں رہتے ہوئے مجھے کمی محسوس ہوتی تھی۔ کیونکہ لاہور میں اس دور میں موسیقی زیادہ تر لوگوں کے لیے کسی حقیقی کیریئر کا رستہ نہیں سمجھی جاتی تھی۔‘‘
عروج آفتاب کو تاہم محسوس ہوا کہ وہ اس 'شعبے کے لیے مناسب‘ نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''میں جیسے جیسے بڑی ہو رہی تھی، ساتھ ساتھ میں محسوس بھی کر رہی تھی کہ مروجہ عمومی ملبوسات سے مختلف لباس پہننا، مختلف سوچ رکھنا وغیرہ میرے لیے موزوں نہیں کیونکہ یوں معاشرہ مجھے پوری طرح قبول نہیں کرے گا۔‘‘ عروج کے خیال میں، ''آزادانہ طریقے سے پرواز تخیل کا امکان نہ ہو، تو یہ کیفیت انسان کی صحت کے لیے اچھی نہیں ہوتی اور کسی فنکار کے لیے تو یہ موت کے مترادف ہوتی ہے۔‘‘
ڈیجیٹل نیٹ کی طاقت
اس وقت 37 سالہ عروج آفتاب کو جاز، صوفی اور لوک موسیقی کے امتزاج کو ایک نئے انداز میں پیش کرنے والی موسیقار اور گلوکارہ کی حیثیت سے بےحد شہرت حاصل ہوئی۔ وہ گزشتہ 15 سال سے امریکی شہر نیو یارک میں رہتی ہیں۔ عروج آج انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل دنیا کی طاقت سے مالا مال ہیں۔ لاتعداد فالوورز کے ساتھ وہ یوٹیوب اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر چھائی ہوئی ہیں۔ 2000ء کی دہائی کے اوائل میں جب وہ 18 برس کی تھیں، اس وقت انہوں نے جاز گروپ 'جیف بکلے‘ کے گیت 'ہا لے لویا‘ کا ریکارڈ پیش کر کے امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان، خاص طور پر لاہور میں بھی دھوم مچا دی تھی۔ ان کا گیت Napster, MySpace اور Limewire جیسی سائٹس پر وائرل ہو گیا تھا۔ اس کامیابی نے عروج کی اس حد تک ہمت افزائی کی کہ انہوں نے بوسٹن کے مشہور زمانہ برکلے کالج آف میوزک میں قرض کی درخواست بھیجی جو فوراً منظور ہو گئی۔
موسیقی کی دنیا میں نئے راستے
بوسٹن کے برکلے کالج آف میوزک کی طرف سے عروج آفتاب کو ملنے والی مالی معاونت نے ان کی زندگی میں موسیقی کو آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بنا دیا۔ اب وہ گلوکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ میں مقیم ایک معروف پاکستانی نژاد موسیقی ساز اور پروڈیوسر بن چکی ہیں۔
وہ اپنی منفرد صلاحیتوں اور انداز کے ساتھ پہلے سے موجود گیتوں کو مکمل نئے اور محتلف عناصر کے امتزاج کے ساتھ انہیں بالکل نیا بنا کر پیش کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ تاہم وہ کہتی ہیں، ''میرے لیے سخت جھنجھلاہٹ اور ناگوار لمحات وہ ہوتے ہیں، جب کوئی میری موسیقی کو Cover کہتا ہے۔ کیونکہ ایسا نہیں ہے۔ جب آپ کسی پرانے اور زبان زد عام گیت کی جڑ پکڑ کر اسے بالکل نئے انداز میں پیش کرتے ہیں، تو وہ دراصل بالکل اصلی تخلیق ہوتی ہے۔‘‘ اس لیے وہ اپنی موسیقی کو محض پرانی موسیقی کا نیا 'ورژن‘ قرار نہیں دیتیں۔
عروج آفتاب کی موسیقی میں اس کے بین الاقوامی معیار کی وجہ سے جگہ یا مقام کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کی موسیقی نہ تو خالص پاکستانی اور نہ ہی مغربی لگتی ہے۔ اسے سننے والا خود بخود مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ ایک نئی جگہ کا تصور کرے جس میں 'شمولیت‘ کا عنصر بھی واضح طور پر پایا جائے۔ عروج کہتی ہیں، ''نئی نسل بے باک ہے، نئی چیزوں کی طلبگار ہے، یہ برابری کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ مخصوص یا مقررہ زمروں میں محدود ہو کر نہیں رہنا چاہتی۔‘‘ عروج کا مزید کہنا تھا، ''برسوں تک، ایشیائی فنکاروں کو ایک کونے میں دھکیل کر رکھا گیا۔ لیکن اب نئی جگہ ابھرتی ہوئی سامنے آ رہی ہے، جو دنیا میں پائی جانے والی مزید خوبصورت چیزوں کو آشکار کر رہی ہے، جو شاید ہمیشہ سے موجود تھیں لیکن اس کے بارے میں کوئی جانتا نہ تھا۔‘‘
اردو 'خوبصورت‘ ہے
عروج آفتاب کے تیسرے البم 'گدھ پرنس‘ میں پاکستان کے معروف غزل گائیک مہدی حسن کے مشہور گیت 'محبت‘ کو بے مثال تحسین ملی اور یہ عروج آفتاب کے لیے مالی طور پر سب سے زیادہ کامیاب گیت ثابت ہوا۔
شاعرانہ طور پر یہ گیت 'محبت‘ عشق و محبت کی آزمائشوں اور مصائب سے متعلق ہے۔ عروج کی اس گانے کی تشریح نے انہیں 2022 ء کا گریمی ایوارڈ برائے بہترین عالمی میوزک پرفارمنس جتوایا۔ یہ گیت سابق امریکی صدر باراک اوباما کی 2021ء کی سمر پلے لسٹ میں بھی شامل تھا۔ اب عروج اور 'محبت‘ مین اسٹریم کا لازمی جز بن چکے ہیں۔
ایک موسیقار اور پروڈیوسر کی حیثیت سے عروج آفتاب موسیقی کی پیچیدگیوں کو سمجھتی ہیں اور 'ایک پیچیدہ جال کی مانند آوازوں اور آلات کے امتزاج‘ کو اپنی گہری سوچ سے جلا بخشتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔