پاکستان آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے پر مجبور
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ تین ارب ڈالر کے نئے بیل آوٹ پروگرام پرعمل درآمد کے خطرات "غیر معمولی طور پر بہت زیادہ تھے۔"
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے تین ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے بارے میں منگل کے روز اپنی اسٹاف رپورٹ جاری کی، جو گزشتہ سال کے دوران معیشت کے خراب نظم ونسق کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی پر چارج شیٹ کے مانند ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حکومت نے کس طرح ایکسچنج ریٹ مارکیٹ کو مسخ کیا اور جب اس پر دباو بڑھتا گیا تو مرکزی بینک اس کی مناسب وضاحت نہیں کرسکا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے 12 جولائی 2023 سے اپریل 2024 تک کی مدت کے لیے تین بلین ڈالر کے پیکج کے بدلے میں 13دیگر کارکردگی اور مقررہ اہداف کو قبول کرنے کے علاوہ 10بڑی شرائط قبول کی ہیں۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ ایس بی اے نے جو تفصیلات طے کی ہیں ان میں نئی حکومت کے لیے، اگر وہ چاہے تو، نئے پروگرام شروع کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز کافی پیچیدہ اور کثیر جہتی تھے اور خطرات غیر معمولی حد تک زیادہ تھے۔ آئی ایم ایف کے مطابق "ان کو حل کرنے کے لیے متفقہ پالیسیوں کے مستقل نفاذ کے ساتھ ساتھ بیرونی شراکت داروں کی جانب سے مسلسل مالی مدد کی ضرورت ہے۔ اور خطرات کو کم کرنے اور میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پروگرام کے معاہدوں کا مستقل اور فیصلہ کن نفاذ ضروری ہو گا۔"
حکومت پاکستان نے عہد کیا کہ وہ جولائی کے اواخر تک بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کردی گئی۔ اس اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے ہوگا اور وہ اب ٹیکس معافی یا ٹیکس میں کوئی رعایت نہیں دے گی۔ پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق حکومت بجلی کی شرحوں میں پانچ روپے فی یونٹ اور گیس کی قیمتوں میں 40 فیصد سے زیادہ اضافے کو جلد ہی نوٹیفائی کرنے پر رضامند ہو گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق حکومت نے (چین سمیت) بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے بجلی کی خریداری کے معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کا وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح گیس کے شعبے میں حکومت نے اوگرا کی طرف سے مقرر کردہ گیس کی نرخوں کے ایڈجسٹمنٹ کے فوری نوٹیفکیشن کے ساتھ ساتھ مقامی اور درآمد شدہ قدرتی گیس، دونوں کے لیے گیس کی قیمتوں کوایک اوسط نرخ میں ضم کرنے کا عہد کیا ہے۔
حکومت نے حالیہ بجٹ اور دیگر مالیاتی پروگراموں کو بھی آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے مطابق کرنے کا عہد کیا ہے۔ حکومت اس کے لیے موجودہ مالی سال میں پارلیمان سے منظور شدہ اخراجات میں کسی بھی اضافی غیر بجٹ اخراجات کے لیے، کم ا ز کم انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام تک، ضمنی گرانٹس کی اجازت نہیں دے گی۔ لیکن شدید قدرتی آفات کو اس سے مستشنی رکھا گیا ہے۔ حکومت نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ سال 2023-24 میں قومی اسمبلی سے پیشگی منظوری سے قبل کسی بھی نئے ٹیکس معافی کا نہ تو آغاز کرے گی اور نہ ہی کوئی نیا ٹیکس چھوٹ دے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔