دہائیوں سے بنگلہ دیش میں محصور ہزاروں ’پاکستان نواز‘ بہاری، نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم!
بنگلہ دیش میں بہاری اُن کو کہا جاتا ہے جو مشرقی بھارتی ریاست بہار کے رہنے والے ہیں اور یہ غیر بنگالی مسلمان ہیں۔ یہ سن 1947 میں فسادات کے بعد ہجرت کر کے سابقہ مشرقی پاکستان پہنچے تھے
سن 1971 میں بنگلہ دیش کے قیام کی لڑائی کے دوران اردو بولنے والے پاکستانی نواز بہاری ایک مرتبہ پھر ہجرت کرنے میں ناکام رہے اور پاکستان پہنچنے سے قاصر رہے۔ ان کی پاکستان کے لیے حمایت ہی اُن کا جرم بنی اور مقامی بنگالی آبادی میں اُن کے خلاف نفرت انگیز جذبات پیدا ہوتے چلے گئے۔ ڈھاکا حکومت نے ان بہاریوں کو معاشرے میں ضم کرنے کے عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔
اس صورت حال کے نتیجے میں بہاری برادری کے ہزاروں افراد بنگلہ دیش میں محصور ہو کر رہ گئے۔ دوسری جانب پاکستانی حکومت نے ان بہاریوں کی واپسی کے عملی اقدامات نہیں کیے۔ یہ لوگ اب دہائیوں سے کیمپوں میں بنیادی حقوق سے محروم اور دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ اب یہ کمیونٹی بنگلہ دیش میں ایک بہتر زندگی بسر کرنے کے خواہش رکھتی ہے۔
بہاری کمیونٹی کی بہتری و بھلائی کے لیے قائم غیر سرکاری تنظیم بہاری ویلفیئر کے مطابق چار لاکھ بہاری اس وقت بنگلہ دیشی کیمپوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ بنگلہ دیش کے حکومتی ذرائع کے مطابق یہ بہاری 116مختلف کیمپوں میں مقیم ہیں۔ یہ کیمپ تیرہ مختلف اضلاع میں واقع ہیں۔ دارالحکومت ڈھاکا میں سب سے زیادہ پینتالیس کیمپس ہیں اور ان میں ایک لاکھ کے قریب بہاری مقیم ہیں۔
ان کیمپوں کی زندگی بہت ہی مشکل اور دردناک ہے۔ کیمپوں کے درمیان ایک میٹر سے بھی کم چوڑائی کے تنگ راستے ہیں۔ ان میں سے بیشتر راستوں پر مقامی بہاریوں کے پالتو مویشی بندھے ہوتے ہیں۔ ان کیمپوں کے مکینوں کی کوئی نجی زندگی نہیں ہے اور ان کے معاملات چھپے نہیں رہتے۔ بارش کے دوران بیت الخلاء کی غلاظت کیمپوں کے راستوں میں پھیلی ہوتی ہے۔ صاف پانی کی کمیابی اور سیورج کے ناقص نظام نے زندگی بہت مشکل کر رکھی ہے۔
بہاری بستیوں کی بیشتر آبادی غیر تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ تربیت کے بغیر ہے۔ اس باعث انہیں بہتر روزگاری ملنا بہت ہی مشکل ہے۔ بنگلہ دیش کی اقلیتی کونسل کے سربراہ خالد حسین کا کہنا ہے کہ بہاری کمیونٹی کا کوئی بھی فرد کسی بھی حکومتی دفاتر میں کسی اچھے منصب پر فائز نہیں ہے اور اس کی وجہ ان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے بہاری زیادہ تر حجام، قصائی، رکشا کھینچنے والے، مزدور، گاڑیوں کی ورکشاپس میں مکینک کے طور پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔
بہاریوں کے کیمپوں میں بے بہا غربت کے باعث بچے کم عمری میں ہی مزدوری پر جانا شروع کر دیتے ہیں۔ بنگلہ دیشی سپریم کورٹ کے سن 2008 کے ایک فیصلے کے مطابق بہاریوں کو ووٹرز لسٹ میں شامل کیا گیا۔ اس فیصلے کے تحت انہیں شناخت نامے حاصل کرنے کا اختیار دیا گیا۔ اس فیصلے کے باوجود مستقل رہائش نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر بہاریوں کو پاسپورٹ اور شناخت حاصل نہیں ہو سکی۔ شناخت کے حصول کے لیے مستقل رہائش لازمی ہے۔
اردو بولنے والے بہاریوں کی بحالی کی ایک تحریک کے رکن صداقت خان فاکو کہتےہیں کہ بہاری غیر انسانی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور پچھلی پانچ دہائیوں سے بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ فاکو کے مطابق صرف پانچ سے دس فیصد کو باقاعدہ تعلیم تک رسائی ہے۔ فاکو کا ڈھاکا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ ان کے حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دے تاکہ بہاری مناسب زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکیں۔
بہاریوں کو بنگلہ دیش مخالف ہونے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔ اُن کی کم از کم دو نسلیں سن 1971 کے بعد پاکستان کی حمایت کی سزا بھگت رہی ہیں اور ابھی بھی انہیں پاکستان نواز خیال کیا جاتا ہے۔ ایک بہاری کا کہنا ہے کہ وہ سب بنگلہ دیش میں انضمام کی کوششوں میں ہیں۔ بہاری ڈھاکا حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں اُن کے لیے کوٹہ مقرر کیا جائے اور اسی طرح سرکاری ملازمتوں میں بھی کوٹے کے تحت نوکریاں دی جائیں تا کہ یہ کمیونٹی اپنی غربت اور ناخواندگی کو ختم کر سکے۔
راحت رافع (عابد حسین)، ڈی ڈبلیو
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔