پاکستان ممنوعہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کیوں کر رہا ہے؟

افغان طالبان اسلام آباد اور پاکستانی طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کررہا ہے لیکن اس جنوب ایشیائی ملک میں انسانی حقوق کے بیشتر کارکنوں نے ان مذاکرات پر نکتہ چینی کی ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

پاکستان کے 'تحریک طالبان پاکستان' (ٹی ٹی پی) کے ساتھ بڑے پیچیدہ تعلقات رہے ہیں۔ اس عسکریت پسند گروپ کے افغان طالبان سے قریبی تعلقات ہیں۔

اسلام آباد نے سن 2008 میں ٹی ٹی پی پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس عسکریت پسند تنظیم کو پاکستان کے اندر متعدد دہشت گردانہ حملوں، اور بالخصوص سن 2014 میں پشاور میں ایک اسکول پر ہونے والے حملے کے لیے ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ اس حملے میں 132بچوں سمیت 149افراد ہلاک ہوگئے تھے۔


ٹی ٹی پی نے پاکستانی فوجیوں اور فوجی چیک پوسٹوں پر بھی حملے کیے، جس کی وجہ سے ملکی فوج میں اس کے خلاف سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔ سن 2012میں اس عسکریت پسند گروپ نے ملالہ یوسف زئی کو گولی ماردی تھی۔ جنہیں بعد میں اپنے آبائی علاقے سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کوفروغ دینے میں نمایاں خدمات انجام کے اعتراف میں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ اس لیے جب پاکستانی حکام نے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کا فیصلہ کیا تو پاکستان میں ایک بڑے حلقے نے اس فیصلے کی مذمت کی۔

اگست 2021میں افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے والے افغان طالبان اسلام آباد اور پاکستانی طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت میں ثالث کا کردار ادا کررہے ہیں۔ کابل میں بات چیت کے اب تک کئی دور ہوچکے ہیں لیکن دونوں اب تک کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔


مذاکرات کے نتیجے میں مئی میں ٹی ٹی پی کے درجنوں جنگجووں اور کمانڈروں کی رہائی کے بدلے میں "مستقل جنگ بندی" پر اتفاق ہوا تھا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب بھی جنگ بندی کی مسلسل اور بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔

ٹی ٹی پی کے مطالبات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ افغانستان کی سرحد سے ملحق سابقہ وفاقی زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا)کی نیم خود مختار حیثیت بحال کی جائے۔ اسلام آباد نے وہاں گورننس کو بہتر بنانے کے غرض سے سن 2018میں فاٹاکو جنوب مغرب خیبر پختونخوا صوبے میں ضم کردیا تھا۔


اس علاقے کو عسکریت پسندوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے جو سرحد کے دونوں جانب سے اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ تعطل کو ختم کرنے کے غرض سے پاکستان سے اسلامی مذہبی رہنماوں کا ایک آٹھ رکنی وفد گزشتہ ہفتے کابل گیا تھا۔ تاہم جنگجو گروپ نے اپنے موقف میں کسی طرح کی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔

غیر عملی مطالبات

سکیورٹی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے مطالبات پاکستانی حکومت کے لیے ناقابل قبول ہیں۔ اقو ام متحدہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،" پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ 14برس سے جاری جنگ ختم کرنا اور سرحدی علاقے میں امن بحال کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس نے جنگجو گروپ سے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا اور افغان طالبان رہنماوں کو سہولت کار بنایا۔"


انہوں نے کہا کہ،" یہ بات چیت مایوس کن حد تک بہت سست رفتار اورمشکلات سے دوچار ہے۔ ٹی ٹی پی کے سب سے اہم اور پیچیدہ مطالبات میں فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام کو تبدیل کرنا، علاقے میں شریعت قانون کا نفاذ اور سرحدی علاقوں سے پاکستانی فوج کا انخلاء ہے۔ "

واشنگٹن سے سرگرم تھنک ٹینک 'ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز' میں جنوب ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین کا خیال ہے کہ وہ ان مذاکرات کے نتائج کے حوالے سے بہت زیادہ پرامید نہیں ہیں۔


انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،" ٹی ٹی پی نے چاند کا مطالبہ کردیا ہے، پاکستان شاید ہی اس مطالبے کو تسلیم کرے گا۔ دوسری طرف ٹی ٹی پی کسی طرح کی مراعات دینے کا خواہش مند نظر نہیں آتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ ہوبھی جاتا ہے تب بھی اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ وہ برقرار رہے۔ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ اس طرح کے معاہدوں کے باوجود ٹی ٹی پی دوبارہ تشدد کی جانب لوٹ گئی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ،" اس بات کا تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ اسلام آباد فاٹا کے انضمام کے فیصلے کو تبدیل کرے گا۔ کیونکہ اگر ایسا ہوا تو یہ ٹی ٹی پی کی بہت بڑی فتح سمجھی جائے گی۔ کمزور گورننس اور کمزور ریاستی فیصلے سے عسکریت پسند تنظیم کو اپنی طاقت بڑھانے اور اپنی مرضی نافذ کرنے کا نہایت بہتر موقع مل جائے گا۔اور میں نہیں سمجھتا کہ اسلام آباد کبھی بھی اس کے لیے تیار ہوگا۔"


پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ سمجھوتہ کے لیے اتنا بیتاب کیوں ہے؟

اسلام باد میں اسٹریٹیجک امور کے ماہر سمن رضوان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، " پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے لیے اس لیے مجبور ہونا پڑا کیونکہ ملک میں حملوں کی تعدا د میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اور اس تشدد پر لگام لگانے کے لیے کوئی قابل عمل متبادل موجود نہیں ہے۔"

کوگلمین کہتے ہیں کہ پاکستان مایوسی میں یہ سب کررہا ہے۔ "اسے معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی ایک بڑی عسکریت پسند طاقت بن چکی ہے اور اپنے حملے بڑے پیمانے پر منظم کررہی ہے۔ اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ افغانستان میں طالبان اس گروپ کو قابو میں کرنے کے لیے کچھ نہیں کریں گے۔اس کے بعد صر ف بات چیت کا راستہ ہی بچ جاتا ہے، جوکہ ایک ناقص متبادل ہے۔ لیکن حقیقتاً فی الحال یہی ایک متبادل ہے۔"


گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستانی فوجیوں کے خلاف ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اپریل میں افغان سرحد کے قریب اس جنگجو گروپ کے حملے میں سات پاکستانی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

پاکستانی حکام نے گوکہ افغانستان کی سرحد کے ساتھ ایک طویل خاردار باڑ لگادی ہے لیکن اس کے باوجود حملے نہیں رک سکے ہیں۔ ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ ٹی ٹی پی کا مسئلہ اسلام آباد اور افغان طالبان کے درمیان اختلافات کا سبب بھی بن رہا ہے۔


انہوں نے کہا،" گوکہ پاکستان کابل کے ساتھ باہمی تعاون کے تعلقات کا خواہش مند ہے لیکن مستقبل میں ان تعلقات کو امتحانات سے گزرنا پڑسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سرحد پار سے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے حوالے سے اسلام آباد اپنی تشویش کا مسلسل اظہار کرتا رہا ہے۔ اسے امید تھی کہ طالبان حکومت پاکستان کو اس کی مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں مدد گار ثابت ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوسکا ہے۔ ٹی ٹی پی کے ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں اور وہ وہاں سے حملے کررہے ہیں۔"

ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں جنوب او روسطی ایشیا کے ڈائریکٹر اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا خیال ہے کہ اگر کوئی معاہدہ نہیں ہوپاتا ہے تو اسلام آباد افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹًھکانوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بناسکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔