پاکستان انسانی اسمگلنگ کی راہ داری اور منزل بھی

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق پاکستان انسانی اسمگلنگ کے لیے ایک ذریعہ، راہدری اور منزل کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔

پاکستان انسانی اسمگلنگ کی راہ داری اور منزل بھی،ایچ آر سی پی
پاکستان انسانی اسمگلنگ کی راہ داری اور منزل بھی،ایچ آر سی پی
user

Dw

انسانی حقوق کمیشن کی 'جدید غلامی: پاکستان میں خواتین اور لڑکیوں کی اسمگلنگ' کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے ملک میں قابل اعتماد اعداد و شمار کی کمی ہے لہذا اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ کس پیمانے پر انسانی اسمگلنگ کی جا رہی ہے۔ ایچ آر سی پی کا کہنا ہے کہ اسے خاص طور پر اندرون ملک اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کے حوالے سے فکرمندی ہے، جس کا دائرہ جنسی اسمگلنگ، بچوں کی جبری مشقت، جبری مزدوری، جبری بھیک اور جبری شادی کے معاملات تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ رپورٹ کہتی ہے کہ معاشی طور پر کمزور خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔

امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سن 2020 میں صوبائی پولیس نے اسمگلنگ کے 32,022 متاثرین کی شناخت کی، جو کہ 2019 میں 19,954 کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔ ان متاثرین میں 15,255 خواتین، 9,581 مرد، 6,937 بچے اور 249 ٹرانس جینڈر شامل تھے۔


جبری مشقت سب سے بڑا مسئلہ

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا مسئلہ جبری مزدوری ہے، جس میں اسمگلر ملازمت کی سخت شرائط طے کرتے ہیں اور ان شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر پورے پورے خاندانوں کو اور بعض اوقات ان کی کئی نسلوں کو جبری مشقت میں پھنسایا رکھا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ''اسمگلنگ کے اس چکر میں مقامی حکومتی اہلکار، مردوں، عورتوں اور بچوں کو زراعت، اینٹوں کے بھٹوں، ماہی گیری، کان کنی، اور ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بھی قرضوں کی ادائیگی کے عوض جبری طور پر کام کرواتے ہیں۔''

اسلام آباد میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور پروگریسیو یوتھ فورم کے جنرل سکریٹری عبداللہ دایو کا کہنا ہے،'' پاکستان میں جبری مزدوری عام ہے، ایک غریب خاندان اگر قرضہ لے کر ادا نہ کر سکے تو پھر ان سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے، بعض اوقات انہیں ایک علاقے سے دوسرے علاقے بھی بھیج دیا جاتا ہے۔'' زیادہ تر کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ مسئلہ غربت ہے لیکن قوانین پر عمل درآمد بھی نہیں ہو رہا۔ عبداللہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو سالوں میں قریب ایک ہزار ملزمان کو انسانی اسمگلنگ کے جرم میں قانونی دائرے میں لایا گیا لیکن سزا صرف ایک سو اکسٹھ افراد کو ہوئی۔


اسمگلنگ سے نمٹنا کیوں مشکل ہے؟

ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کے حوالے سے میڈیا میں بہت کم رپورٹنگ کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ انسداد اسمگلنگ کے موجودہ قانون پر عمل درآمد بھی کم ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اسمگلنگ کی مختلف جہتوں کے بارے میں آگاہی کا فقدان، اور متعلقہ فریقین جیسے کہ ایف آئی اے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان عدم ہم آہنگی بھی پائی جاتی ہے، یہ ایسی وجوہات ہیں جن کے باعث اس جرم کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

پاکستانی صحافی منیزے جہانگیر نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،'' اس معاملے پر رپورٹنگ بہت مشکل ہے۔ اس میں مافیا بھی ملوث ہوتے ہیں۔ لوگ بات کرنا نہیں چاہتے کیوں کہ انہیں ڈر لگتا ہے کہ پولیس کیس بن جائے گا۔'' منیزے بتاتی ہیں کہ وہ خود ایسے خاندانوں سے ملی ہیں جو انسانی اسمگلروں کے جھانسے میں آکر یورپ جانا چاہتے ہیں۔''


ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں حکومت کو تجویز کیا گیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے مختلف پہلوؤں سے متعلق کوائف اکٹھا کرنے، مرتب کرنے اور رپورٹ کرنے کا ایک موثر نظام ترجیحی بنیادوں پر وضع کیا جائے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اسمگلنگ کی نشاندہی کرنے اور اطلاع دینے کی صلاحیت کو بھی مضبوط بنایا جانا چاہیے۔ انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے یہ بھی تجویز کیا گیا کہ حکومت کو انسداد اسمگلنگ کے قوانین کو لاگو کرنے کے لیے مناسب وسائل مختص کرے، متعلقہ فریقین کے درمیان بہتر ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔