سکیورٹی فورسز پر حملہ، پاکستان کا کابل سے تحقیقات کا مطالبہ
گزشتہ روز پاکستان میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 23 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اسلام آباد نے طالبان حکام سے احتجاج کرتے ہوئے ذمےداران کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسمعیل خان میں ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری ایک مذہبی عسکریت پسند گروہ نے قبول کر لی ہے۔ پاکستان میں حالیہ سکیورٹی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی تجزیہ کاروں کی طرف سے اگلے سال 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس حملے کے بعد کابل کے ایلچی کو طلب کیا اور افغان حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ "اس معاملے کی جامع تحقیقات کریں اور اس کے پیچھے کارفرماں عناصر کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ ‘‘ طالبان حکام کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس مطالبے کے جواب میں خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، "اگر اسلام آباد ہمیں اس حملے کی تفصیلات مہیا کر دے تو ہم اس بابت تحقیقات کرنے کو تیار ہیں۔‘‘
امریکہ نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں کہا کہ امریکہ پاکستان کی عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور تحقیقات سے متعلق پاکستان کی مانگ کی حمایت کرتا ہے۔
اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات حالیہ مہینوں میں، برسوں کی کم ترین سطح پراس وقت پہنچ گئے تھے جب اسلام آباد نے اس سال پاکستان میں 24 میں سے 14 حملوں کا زمہ دارافغان شہریوں کو ٹھہراتے ہوے قانونی دستاویزات نہ ہونے والے افغان شہریوں کو پاکستان چھوڑنے کا الٹیمیٹم دیا گیا تھا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ عسکریت پسند افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں میں تربیت حاصل کر رہے ہیں اور پاکستان میں ہونے والے کئی حملوں میں ملوث ہوتے ہیں تاہم کابل نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی سلامتی ان کا داخلی مسئلہ ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔