پاکستان: ہوائی اڈوں کی آوٹ سورسنگ، عوام کا فائدہ یا نقصان؟
حکومت پاکستان نے کراچی، اسلام آباد اور لاہور کے ہوائی اڈوں کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حکومتی فیصلے پر ملک کی ٹریڈ یونینز کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔
کچھ مزدور رہنماؤں کا خیال ہے کہ یہ نجکاری کی طرف ایک قدم ہے اور یہ بھی کہ اس سے مزدوروں کے مسائل میں اضافہ ہوگا۔ تاہم سول ایوی ایشن اتھارٹی اس تاثر کو غلط قرار دیتی ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان سیف اللہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت ملکی ہوائی اڈوں کو عالمی سطح پر لا کر اس کا فائدہ عوام کو پہنچانا چاہتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے آوٹ سورسنگ کی جائے گی، جو مسابقت کی بنیاد پر ہوگی۔ جو پارٹی اچھی بولی لگائی گی اسے کامیاب قرار دیا جائے گا۔‘‘
ملک کے کئی حلقوں کی جانب سے یہ الزامات بھی لگائے جارہے ہیں کہ حکومت ان ایئر پورٹس کو غیر ملکیوں کے حوالے کر رہی ہے۔ تاہم سیف اللہ اس کی بھی تردید کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ ہوائی اڈے دوسرے ممالک کے حوالے کیے جانے کی افواہ درست نہیں۔ انہوں نے کہا، ''دنیا کے بیشتر بین الاقوامی ہوائی اڈوں کا نظم ونسق آؤٹ سورسنگ کے طریقہ کار سے ہی عمل میں لایا جاتا ہے۔‘‘
تاہم مزدور تنظیمیں سول ایوی ایشن کے ترجمان کی ان باتوں سے مطمئن نظر نہیں آتیں اور ان کے خیال میں آؤٹ سورسنگ سول ایوی ایشن کے ملازمین کے لیے بھیانک ثابت ہوگی، اس سے بے روزگاری بڑھے گی اور غربت میں بھی اضافہ ہوگا۔
ناصر منصور، جو کہ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل ہیں، کا کہنا ہے کہ اس آؤٹ سورسنگ کے ذریعے حکومت بے روزگار افراد کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتی ہے، جس کا اثر لوگوں کے معیار زندگی پر بھی ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو بتایا، ''پاکستان میں پہلے ہی 8 کروڑ سے زیادہ افراد غربت میں رہ رہے ہیں۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ مزید لوگوں کو بے روزگاری کی طرف دھکیلا جائے گا اور ان سے روٹی کمانے کا حق چھین لیا جائے گا۔‘‘
ناصر منصور کے مطابق حکومت نے ملکی ہوائی اڈوں پر پہلے ہی ٹریڈ یونینز کی سرگرمیوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔ انہوں نے کہا، ''آج اگر ٹریڈ یونینز سرگرم ہوتیں تو حکومت اتنی آسانی سے یہ قدم نہیں اٹھا پاتی۔‘‘
پاکستان میں یہ عام خیال ہے کہ سرکاری ادارے اس وقت نجکاری کی طرف جاتے ہیں، جب وہ نقصان میں چلتے ہیں اور حکومت نقصان کو ایک بڑا جواز بنا کر پیش کرتی ہے۔ نجکاری کے حامی ایسے اداروں کو ہاتھی گردانتے ہیں جو ملکی مالی وسائل پر بوجھ بن جائیں۔ اس ضمن میں ریلوے، واپڈا، پاور ڈسٹریبیوشن کمپنییاں اور پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن سمیت کئی اداروں کا حوالہ دیا جاتا ہے اور انہیں ملکی خزانے پر بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔
تاہم سول ایوی ایشن حکام کا کہنا ہے کہ ہوائی اڈوں کی آؤٹ سورسنگ کے حوالے سے یہ تاثر غلط ہے۔ سول ایوی ایشن کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سال دو ہزار بیس، اکیس کے دوران لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے ایئرپورٹس سے تقریبا 120 ارب روپے کا ریونیو وصول ہوا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ یہ ادارہ نقصان میں نہیں چل رہا۔ یہ فیصلہ سیاسی ہے۔‘‘
اس افسر نے یہ دعوی بھی کیا کہ اس حوالے سے کام تقریباﹰ تین ماہ سے جاری ہے۔ انہوں نے کہا، ''حکومت نے ورلڈ بینک سے الحاق شدہ ایک ادارے کو 'کنسلٹیشن‘ کے لیے مقرر کیا ہے۔ اس افسر کا یہ بھی دعوی ہے کہ کئی ملین ڈالرز تو صرف کنسلٹیشن اور انٹرنیشنل ٹینڈرز کے اشتہارات کے لیے حکومت کو دینے پڑیں گے۔ انہوں نے کہا، ''سرمایہ کاری آنا تو دور کی بات ہے ابھی تو خود حکومت کی جیب سے بہت زیادہ پیسہ جائے گا۔‘‘
خیال کیا جاتا ہے کہ سی اے اے کے زیر انتظام چلنے والے مختلف ہوائی اڈوں میں سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ائیر پورٹس سب سے زیادہ منافع بخش ہیں۔ اسی لیے سرمایہ کاروں کی نظر بھی ان پر ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔