افغانستان: منشیات پر پابندی سے افیون کی سپلائی میں 95 فیصد کی کمی
افغانستان افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہو نے کے ساتھ ہی یورپ اور ایشیا میں ہیروئن جیسی منشیات کا بھی ایک بڑا ذریعہ تھا۔ تاہم طالبان نے اپریل سن 2022 میں پوست کی کاشت پر پابندی لگا دی۔
اتوار کے روز شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کی جانب سے پوست کی کاشت پر پابندی کے بعد سے افغانستان میں افیون کی پیداوار میں زبردست کمی آئی ہے۔ افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے اپریل سن 2022 میں پوست کی کاشت پر پابندی لگانے کا اعلان کرتے ہوئے ملک سے منشیات کی صنعت کو ختم کرنے کا عہد کیا تھا۔
پوست کے پودے ہی افیون اور ہیروئن کا ذریعہ ہیں۔ طالبان کے قبضے سے پہلے تک افغانستان افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا اور یورپ اور ایشیا میں ہیروئن کا ایک بڑا ذریعہ بھی۔
افیون کی پیداوار سے متعلق اقوام متحدہ کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) کی تازہ رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں پوست کی کاشت میں رواں برس تقریباً 95 فیصد کی کمی آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سن 2022 کے اواخر میں تقریباً 233,000 ہیکٹیئر اراضی پر اس کی کاشت کی گئی تھی، جو کہ رواں برس یہ سمٹ کر محض 10,800 ہیکٹیئر تک ہی رہ گئی۔ گزشتہ برس افغانستان میں 6,200 ٹن افیون کی پیداوار ہوئی تھی جو اس برس کم ہو کر صرف 333 ٹن رہ گئی۔
رپورٹ کے مطابق رواں برس مجموعی طور پر تقریباً 24 سے 38 ٹن تک ہی قابل برآمد ہیروئن بن پائی، جبکہ سن 2022 میں تخمینوں کے مطابق اس کی مقدار 350 سے لے کر 580 ٹن تک تھی۔ رواں برس کسانوں کی آمدن میں بھی تقریباً 92 فیصد کی کمی آئی ہے، جو 1.36 بلین ڈالر سے کم ہو کر صرف 110 ملین ڈالر تک ہی رہ گئی ہے۔ سن 2022 میں افغانستان میں قدر کے لحاظ سے پوست کی فصلیں کل زرعی پیداوار کی تقریباً ایک تہائی بنتی ہیں۔
یو این او ڈی سی نے افیون کی صنعت سے وابستہ افراد کے خطرے سے متعلق بھی خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ اب ایسے لوگ ہتھیاروں، لوگوں یا مصنوعی منشیات کی سمگلنگ جیسی دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اسی ایجنسی کی ستمبر کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افغانستان دنیا میں بہت تیزی سے میتھامفیٹامائن پیداوار کرنے والا ملک بن گیا ہے۔
پوست پر پابندی سے انسانی بحران میں اضافے کا خدشہ
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی) کا کہنا ہے کہ پوست کی صنعت پر طالبان کا کریک ڈاؤن سے بہت سے افغان باشندوں کے ذریعہ معاش پر منفی اثر بھی ڈال سکتا ہے۔ ادارے نے ''بہت سے کمزور دیہی برادریوں میں انسانی مسائل پیدا ہونے جیسے نتائج'' سے متنبہ کیا ہے۔ یو این او ڈی سی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر غدا ولی کا کہنا ہے، ''آج، افغانستان کے لوگوں کو فوری طور پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔''
ولی نے بتایا کہ کپاس اور گندم جیسی دیگر فصلوں کو پوست کے پودوں سے کہیں زیادہ آب پاشی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان ''مسلسل تین برسوں سے خشک سالی'' سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ''پائیدار معاش کے لیے افغانستان کو مضبوط سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے تاکہ افغانوں کو افیون سے الگ مواقع فراہم کیے جا سکیں۔''
گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان جاری جنگ کے ساتھ ہی زلزلوں اور خشک سالی جیسی قدرتی آفات سے پیدا ہونے والے شدید انسانی بحران سے دوچار ہے۔ پڑوسی ملک پاکستان سے دس لاکھ سے زائد افراد کو ملک چھوڑنے کے حکم کے بعد افغانستان کو واپس آنے والے مہاجرین کی آمد کا بھی سامنا ہے۔
طالبان کی حکومت کو کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے اور بین الاقوامی امداد کی ترسیل میں تیزی سے آنے والی کمی کی وجہ سے بحران مزید بڑھ گیا ہے۔ بین الاقوامی امداد میں کمی اس وقت آئی جب طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے ساتھ ہی متعدد دیگر بنیادی انسانی حقوق کو بھی بڑی حد تک محدود کر دیا۔ واضح رہے کہ طالبان نے اگست سن 2021 میں امریکی زیر قیادت بین الاقوامی افواج کے عجلت میں انخلاء کے دوران ہی افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔