ہم من حیث القوم بھکاری بن چکے ہیں
ملک میں پیشہ ور بھکاریوں اور گداگروں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر اس سے بھی خطرناک صورت حال یہ ہے کہ ہم بطور قوم انٹرنیشنل سرٹیفائیڈ بھکاری بنتے جا رہے ہیں۔
ہمارے معاشرتی رویے بتاتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی دانست میں بھکاری ہے۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں کو شاید اچھا نا لگے کہ ہمیں اس طرح سے بھکاری کا ٹائٹل دے دیا۔ ہم تو اپنی محنت کی کمائی کھاتے ہیں۔ خون پسینہ ایک کر کے کماتے ہیں۔ ہمیں کوئی کیسے بھکاری کہہ سکتا ہے۔
جی بالکل ہم سب ایک غیرت مند قوم کے فرد ہیں۔ کیونکہ بچپن سے ہمیں یہ ہی رٹوایا گیا ہے۔ مگر ایک لمحے کے لیے زرا۔۔۔۔۔۔
آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے زیادہ تر افراد کو اس بات کا تجربہ ہوا ہو جو کہ ہمیں ہوا۔ ایک رشتہ دار مریض کے ساتھ اسپتال میں کچھ وقت گزرا۔ نسبتاً ایک اچھے پرائیویٹ اسپتال کے عملے کا یہ حال تھا کہ مریض کی دیکھ بھال کرنے کے بعد جب شفٹ تبدیل ہوتی تو سلام کرنے حاضر ہو جاتے اور کسی نا کسی بہانے سے اضافی رقم کا تقاضہ کرتے رہے۔ جبکہ انہیں تنخواہ اسی مد میں دی جاتی ہے کہ مریض کی دیکھ بھال پر مامور رہیں۔
بخشش کے نام پر بھیک کا تقاضہ ہمارے چلن کو واضح کرتا ہے۔ اسی طرح آپ کسی بھی محکمے میں اپنے کسی جائز اور مناسب کام کے لیے چلے جائیں، انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ جب وہاں موجود ملازم جس کام کی باقاعدہ تنخواہ لیتا ہے، اسی کام کے لیے آپ سے اضافی پیسے طلب کرتا ہے۔ کوئی چائے پانی مانگتا ہے تو کوئی ڈھکے چھپے انداز میں رقم کا تقاضا کرتا ہے۔ ایسا شخص کسی بھکاری سے کم نہیں ہوتا۔
پھر اسی طرح سے بھکاریوں کی ایک اور قسم وہ ہے، جو آپ کو مختلف شاپنگ مالز اور فوڈ کورٹس کے باہر ملیں گے۔ چند چھوٹی موٹی اشیاء بیچنے والے گداگر تو ہرگز نہیں تھے۔ لیکن ہمارے معاشرتی رویوں نے اس کام کو بھی گداگری میں گڈمڈ کر دیا۔ غربت تو ایک صورتحال ہے، جس سے ہاتھ پاؤں مار کر نکلا جا سکتا ہے لیکن غربت کو اگر کیش کرانا شروع کر دیا جائے تو پھر ایسے غریبوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھتی ہے اور ٹھیک ایسا ہی ہوا۔ شروع شروع میں لوگ ایسے محنتی افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کے دل پسیج جاتے۔ ان کو محنتی افراد تو گردانتے مگر ان سے سلوک گداگروں والا ہی کرتے۔ ان سے چیزیں لیے بغیر ان کو رقم پکڑا کر آگے بڑھ جاتے اپنے تئیں خود کو بڑا سخی سمجھتے۔ پھر ہوا یوں کہ بھکاری آپ کی اس نفسیات کو سمجھ گئے اور اپنے پورے پورے خاندان کو اسی "باعزت" روزگار پر لگا دیا۔ اب یہ لوگ بظاہر تو کچھ بیچ رہے ہوتے ہیں لیکن درپردہ بھیک ہی مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اور ہم ان کی مدد کر کے گداگری کو ہی فروغ دے رہے ہوتے ہیں۔
اب ایک اور قسم سے آپ کا تعارف ہو جائے، جس میں ہم سب شامل ہیں۔ اپنے اپنے سرکل پہ نگاہ دوڑائیں۔آپس کے تعلقات میں بھی ہم دعوت دینے سے زیادہ دعوت کھانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ تحفے دینے سے زیادہ تحفہ مانگنے کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ دوستوں سے ٹریٹ کی فرمائش زور و شور سے کی جاتی ہے۔ بلکہ ابھی حال ہی میں میرے بیٹے نے ایک دوست کو یونیورسٹی میں ایڈمشن کے لیے ریفرینس لیٹر لکھنے کا کہا تو وہ دوست پہلے تو ٹال مٹول کرتا رہا اور پھر جب وقت کم رہ گیا تو فرمانے لگے پہلے کچھ کھلاؤ پھر لکھوں گا۔
آج ہم مفت تقسیم ہونے والی ہر چیز پر لپکتے ہیں۔ کسی مصنف کی کتاب پبلش ہو تو اشتہار یا ریویو کے نیچے مفت مانگنے والوں کی لائن لگی ہوتی ہے۔ کہیں بھی ضرورت مند لوگوں کے لیے کوئی بھی ریلیف پیکج کا اعلان کیا جائے تو ہر شخص ہی خود کو ضرورت مند کی کیٹیگری میں شامل کر لیتا ہے۔ وہ کہاوت یاد آ جاتی ہے کہ بادشاہ پیاسا بھی ہو تو کتے کی مانند جوہڑ پر منہ کبھی نہیں جھکائے گا۔ انسان اپنی جیب سے نہیں اپنے دل سے امیر ہوتا ہے۔ دل کا غریب بینک بیلنس رکھنے کے باوجود فقیر ہی ہوتا ہے۔
علامہ اقبال نے ہماری قوم کو عقاب سے تشبیہ دی تھی، جو بلند پرواز کرتا ہے اور مردار کبھی نہیں کھاتا۔ لیکن آج خودداری اور عزت نفس جیسے الفاظ متروک ہو چکے ہیں۔ ہمیں ان کا مطلب بھی نہیں معلوم۔ اقوام عالم میں بھی ہم ایک بھکاری کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ہمارے اجداد خوددار، مہمان نواز لوگ تھے مگر اب ہم میں سے ہر شخص اپنی غربت کیش کرانا چاہتا ہے۔ یہ عادت بد اس حد تک ہمارے خون میں سرائیت کر گئی ہے کہ ہمیں اس رویے پر اب شرمندگی بھی محسوس نہیں ہوتی ہے۔ یا شاید مانگے بنا اب چین ہی نہیں پڑتا۔
ہماری والدہ اکثر نصیحت کیا کرتی تھیں کہ بری عادات فطرت بن جایا کرتی ہیں اور اس ضمن میں ایک کہانی بھی سنایا کرتی تھیں کہ ایک بادشاہ کو ایک خوبصورت بھکارن پسند آ گئی۔ بھکارن کے دن بدل گئے اور ملکہ کا رتبہ حاصل ہو گیا۔ لیکن اب مانگنے والی عادت بد کا کیا کیا جائے۔ ملکہ کو چین ہی نا پڑتا تھا، نا ہی کھانا کھانے کی رغبت ہوتی۔ دن بدن کمزور ہونے لگیں۔ عقلمند بادشاہ نے اس کا حل یہ نکالا کہ محل کی ایک دیوار پر بہت سے دروازے نکلوا دیے۔ کنیزیں دروازوں کے اس پار کھڑی ہو جاتیں۔ ملکہ دروازہ بجا کر کشکول پھیلاتی اور کنیزیں بھیک ڈال دیتیں۔ اور پھر ملکہ کو سکون آجاتا۔
ایسا لگتا ہے کہ بھکارن ملکہ والی بھکاری نفسیات ہمارے ڈی این اے میں شامل ہو گئی ہے اور اب اگلی نسلوں تک منتقل ہو رہی ہے۔ مہمان داری کو اپنی عزت گرداننے والے جا چکے۔ اب اپنے حق سے زیادہ وصول کرنے میں عزت نفس کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچتی۔ مادیت پرستی نے ہر سو اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال میں اپنے بچوں کو خوداری کا سبق پڑھائیں۔ بھکاری نفسیات سے بچا کر انہیں دل کا امیر بادشاہ بنائیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔