جسم صرف ایک تصویر نہیں
جسمانی عیب جوئی ایک بڑا مسئلہ ہے، جو عمر، جنس اور ثقافت کی حدود سے ماورا ہے۔ سوشل میڈیا پر خوبصورتی کے غیرحقیقی معیارات تیزی سے غلبہ پا رہے ہیں۔ نوجوانوں کی اکثریت اپنے جسم سے غیر مطمئن محسوس کرتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں خاندانی اور برادری کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس صورت میں صرف اجنبیوں کی طرف سے نہیں بلکہ خاندان کے اندر سے بھی ایک دوسرے کے جسم پر اور رنگت پر طنز کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ جسمانی عیب جوئی کا اکثر شکار بچے اور نوجوان ہوتے ہیں۔
بعض جمالیاتی معیارات پر پورا اترنے کا دباؤ ان کی ذہنی صحت اور خود اعتمادی کو متاثر کرتا ہے۔ لڑکی تھوڑی سی بھی سانولی ہو یا اس کا وزن بڑھ جائے تو والدین تشویش کا شکار ہو جاتے ہیں، جس سے لڑکی ایک طرح کی ذہنی اذیت محسوس کرنے لگتی ہے۔ لڑکی کی نسبت لڑکے کو زیادہ کھانے کی ترغیب دی جاتی ہے کیونکہ سمجھا جاتا ہے کہ لڑکے کا وزن بڑھنا کوئی مسئلہ نہیں۔
اس طرح سوشل میڈیا کی ایک اور ہی دنیا ہے۔ انسٹاگرام فلٹرز اور فوٹو ری ٹچنگ سافٹ ویئر کے دور میں، صحت مند جسم کا تصور مسخ ہوتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم موازنے کی ثقافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈال رہے ہیں، جس کی وجہ سے نوجوانوں کی اکثریت اپنے جسم سے غیر مطمئن محسوس ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جو تصاویر ہم آن لائن دیکھتے ہیں وہ اکثر بہت زیادہ فلٹرڈ ہوتی ہیں اور انسانی حقیقی معیارات کے برعکس ہوتی ہیں۔
یہ مفروضہ تو بہت عام ہے کہ "کھاتے پیتے گھرانے کا لگتا/لگتی ہے" گزرے ہوئے وقتوں میں، وزن کے زیادہ ہونے کو اکثر خوشحالی اور اچھی صحت سے منسلک کیا جاتا تھا۔ مختلف ثقافتوں میں، بھاری بھرکم جسم کا ہونا ایک مکمل شخصیت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ تاہم، جیسے جیسے معاشرتی اصول تبدیل ہو رہے ہیں، اسی طرح جسم کے بارے میں ہمارا تصور بھی بدلتا جا رہا ہے۔ اگر موجودہ دور کی طرف تیزی سے آگے بڑھیں، تو ہمیں ایسا منظر نامہ نظر آتا ہے، جو ایک بالکل مختلف آئیڈیا پیش کرتا ہے۔ اب اس صورت میں انسان کرے بھی تو کیا؟
امریکی ماہر سماجیات چارلس کولی کا نظریہ "Looking-glass self" بہت دلچسپ ہے۔ جو بتاتا ہے کہ ہمارے خود کو دیکھنے کا زاویہ سماجی میل ملاپ کے ذریعے ہی بنتاہے اور ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دوسرے ہمیں کیسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جسم کے تناظر میں، اس کا مطلب ہے کہ ہمارے خیالات کی تشکیل معاشرتی توقعات اور دوسروں کے تاثرات پر ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ معاشرتی نظر ہمارے جسم کے بارے میں ہمارے تصور کو کس طرح متاثر کرتی ہے۔
جسمانی عیب جوئی کا مقابلہ کرنے کے لیے، جسمانی مثبت کے تصورات کو فروغ دینا اور معاشرتی اصولوں کو چیلنج کرنا ضروری ہے۔ کولی کا نظریہ ہمیں دوسروں کے خود خیالی کی تشکیل میں اپنے الفاظ اور اعمال کی طاقت کو پہچاننے کی ترغیب دیتا ہے۔
ہر جسم مختلف ہے، اور اس مختلف ہونے پر ہمیں خوش ہونا چاہیے، نہ کہ تنقید کرنی چاہیے۔ تنوع کو اپنانے کا مطلب یہ تسلیم کرنا ہے کہ خوبصورتی مختلف اشکال، سائز اور رنگوں میں آتی ہے۔ غیر حقیقی معیارات پر قائم رہنے کے بجائے، معاشرے کو ان منفرد خصوصیات کے لیے قبولیت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو ہر فرد کے جسم کو ان کے اپنے سفر اور تجربات کا ثبوت ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔