جنسی ہراسانی! خواتین کی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ

پاکستان میں معلومات تک رسائی کا قانون تو موجود ہے لیکن اگر معلومات کے حصول کے لیے درخواست دی جائے تو اکثر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے۔ معاملہ جنسی ہراسانی کا ہو تو معلومات حاصل کرنا اور بھی مشکل ہے۔

جنسی ہراسانی! خواتین کی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ
جنسی ہراسانی! خواتین کی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ
user

Dw

انیلہ نے حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور سے میڈیا سٹیڈیز میں ایم فل مکمل کیا ہے۔ انیلہ تھیسز جمع کروانے یونیورسٹی گئی تو ان کے سپروائزر نے انہیں اپنے آفس میں لاک کر لیا۔ ان کا موبائل اپنے قبضے میں لیا اور اسی سپروائزر کے رویے کے بارے میں مشترکہ گروپ میں انیلہ کی شکایت پر انیلہ ہی کے فون سے معذرت کا میسج بھیجا۔

یونیورسٹیز میں جنسی ہراسانی کی شکایات نئی نہیں ہیں۔ مگر بدقسمتی سے شکایات کو کبھی بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے بڑا خطرہ سمجھ کر حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور وہی یونیورسٹی ہے، جن کے افسران اس وقت پولیس حراست میں ہیں۔ ان کے فون اور لیپ ٹاپ سے 200 سے زائد طالبات کی نازیبا ویڈیوز ملنے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔


یہ اسی سال کہ بات ہے جب مجھے پنجاب کے ایکسائز اینڈ ٹیکسٹیشن ڈیپارٹمنٹ کے جونیئر کلرک کی جانب سے نامناسب پیغامات ملنا شروع ہوئے۔ میں نے ادارے میں ورک پلیس ہیرسمنٹ کے حوالے سے درخواست دائر کی اور ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی میں موجود خاتون ممبر نے سماعت کے دوران مجھ سے عجیب سوالات کیے کہ وہ تو آپ سے صرف بات کرنا چاہ رہا تھا، اس میں ہراسمنٹ کہاں سے آ گئی وغیرہ۔ تب مجھے اس بات کا احساس بہت شدت سے ہوا کہ کمیٹی بنانا ہی اہم نہیں بلکہ کمیٹی میں ٹرینڈ لوگوں کا شامل ہونا بہت اہم ہے۔ کچھ ایسے ہی مسائل یونیورسٹیز کی طالبات نے بھی بیان کیے۔

میں نے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت اسلام آباد کی 17 یونیورسٹیز سے جاننے کی کوشش کی کہ ایچ ای سی کی ہراسمنٹ کمیٹیوں کو تشکیل دینے کے حکم نامے کے مطابق 2018ء سے اب تک ان تعلیمی اداروں میں کونسی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ان کمیٹیوں کو کتنی شکایات موصول ہوئیں اور ان پر کیا کارروائیاں ہوئیں۔


مجھے پہلی کام ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے موصول ہوئیں۔ ایک محترمہ ایچ آر سے بات کر رہی تھیں اور پہلا سوال یہی داغا کہ آپ کون ہوتی ہیں ہم سے یہ سب تفصیل پوچھنے والی اور ہم آپ کو کیوں یہ سب بتائیں۔ کچھ قانون سمجھانے کی کوشش کی مگر افسوس۔ آخر مجھے کہنے لگیں کہ آپ سے اب ہمارے وکیل ہی بات کریں گے۔ یہی نہیں بلکہ کامسیٹس یونیورسٹی کے پی ای او بھی بضد رہے کہ وہ تفصیلات شیئر نہیں کریں گے کیونکہ یہ ان کے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے گی۔

قابل غور بات اس سب عمل میں یہ رہی کہ ان تعلیمی اداروں نے میری درخواست کے دس دن کے اندر مجھے معلومات دینی تھیں، جو نہیں دی۔ معاملہ پاکستان انفارمیشن کمیشن میں رہ گیا، جنہوں نے قانون کے مطابق میری اپیل کے 60 دن کے اندر سماعت مقرر کرنی تھی مگر یہ سماعت دو ماہ کے بہت بعد کی دی مگر اس پر بھی صرف سات یونیورسٹیز نے کچھ نامکمل معلومات فراہم کیں۔ جبکہ 9 یونیورسٹیز نے معلومات نہیں دیں۔


حیرت انگیز طور پر ان تمام یونیورسٹیز کی جانب سے فراہم کیے گئے ڈیٹا میں ایک بھی درخواست کسی طلبہ کی جانب سے کسی فیکلٹی ممبر کے خلاف نہیں تھی۔ اسلام آباد کی مختلف یونیورسٹیز سے اکثر جنسی ہراسانی کا دھواں بلند ہوتا آیا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ کسی خاتون نے کبھی ہراسمنٹ کمیٹی میں کوئی درخواست جمع نہیں کروائی؟ سوالات بے شمار ہیں، جو یہ بتانے میں مددگار ہوں گے کہ اساتذہ کی جانب سے سمسٹر میں فیل کیے جانے کا خوف طلباء کو کسی بھی قانونی چارہ گوئی سے دور رکھتا ہے۔

ایچ ای سی کی یونیورسٹیز کے اندر ہراسمنٹ کمیٹیاں بنوا دینے سے یہ بات واضح نظر آ رہی ہے کہ کسی طالبہ کی کوئی چارہ گوئی نہیں ہو سکی کیونکہ مضبوط آج بھی ظلم کا وہی نظام ہے، جو بچیوں کو ڈگری مکمل کرنے کے خوف سے چپ کروا دیتا ہے یا پھر والدین کی معاشرے میں اچھلتی عزت کے خوف سے اور ہمارے معاشرے میں بچیوں کا اعلی تعلیم کا خواب، جنس کے ان بچاریوں کے ہاتھوں مسلسل استحصال کا شکار ہے۔ مگر داد رسی کرے بھی تو کون؟


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔