گٹکا و چھالیہ مافیا بے لگام

حیرت انگیز بات ہے کہ اسمبیلوں میں گٹکے کی فروخت کے خلاف بل پیش کیا جا رہا ہے مگر جس پر پابندی لگنی چاہیے وہ سب کی دسترس میں ہے اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں وہ ہے چھالیہ۔

گٹکا و چھالیہ مافیا بے لگام
گٹکا و چھالیہ مافیا بے لگام
user

Dw

گٹکا و چھالیہ بیماریوں کی آماج گاہ ہیں اور یہ دعویٰ ایسا نہیں کہ جسے ثابت کرنے کے لیے لمبے چوڑے تجربات کا سہارا لیا جائے یا الجبرا سے مدد حاصل کی جائے۔ گٹکے اور مین پوری کے استعمال سے 18 سال سے کم عمر سینکڑوں نوجوان منہ کے کینسرکا شکار ہو رہے ہیں۔ شہروں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یہ مصنوعات روزانہ کھاتی ہے اور اس تواتر سے کھاتی ہے کہ ان کا منہ 24 گھنٹے میں شاید ہی کبھی خالی نظر آتا ہو۔

کچھ ہفتوں قبل مہنگائی کی ایک اور لہر نے چھالیہ کی قیمتوں کو آسمان تک پہنچا دیا تو لوگوں کا حال یہ ہوگیا کہ انہوں نے مارکیٹ سے سپاریاں خریدنا شروع کر دیں کیونکہ سپاریوں میں چھالیہ ہوتی ہے۔ قیمتیں بڑھنے سے اس کے مطالبے میں کمی ہو جانی چاہیے تھی لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہوا لوگ چھوٹی چھوٹی تنگ و تاریک دکانوں، جن میں چھالیہ و گٹکا کی فروخت کی جاتی ہے، کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان میں بڑی تعداد ان خواتین کی ہے جو سونف سپاری کی شوقین ہوتی ہیں اور لاعلمی کے باعث گٹکا کو نشہ تصور نہیں کرتیں۔ گٹکے کی تیاری میں سی گریڈ اشیاء استعمال ہوتی ہیں مثلاً پسا ہوا شیشہ، چونے کا پتھر اور افیون۔ ان میں ایک ایسا جُز ہے، جو کہ صراحتاً مضر ہے اور وہ ہے جانور کا خون۔


چھالیہ و گٹکا کا رس ہی کارسینو جینک ہے کیونکہ یہ مصنوعی و ٹیکسٹائل رنگوں سے بنتے ہیں۔ گٹکا کھانے والے سبھی ''میکوزل فائبروسس‘‘ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس مرض میں منہ کی جھلی سوکھ جاتی ہے اور زبان میں لکنت محسوس ہوتی ہے۔ منہ کھلنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اسے پری کنڈیشنڈ کینسر بھی کہا جاتا ہے۔ گٹکا و چھالیہ کھانے والے افراد کے منہ پر ابتداً چھوٹا سا چھالا بنتا ہے۔ چھالا بننے کے بعد بتدریج منہ میں کچھ تبدیلی رونما ہوتی ہے اور پھر وہ چھالا بڑا ہو کر رسولی بن جاتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ لوگ عبرت حاصل نہیں کرتے۔ جس مریض کو منہ کا کینسر ہو جائے یا اورل سرجری کے بعد اس کے دوست احباب منہ میں گٹکا چبائے اس کی خیریت دریافت کرنے آجاتے ہیں۔ مگر گٹکے کا استعمال نہیں چھوڑتے۔

اب ذہنوں میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں آخر اس خطرناک چیز کی پیداوار ہی کیوں ہوتی ہے؟ تو جان لیجئے کہ گٹکا غیر قانونی طریقے سے امپورٹ کیا جاتا ہے۔ پولیس کے چھاپوں کے ڈر سے وہ ٹرکوں میں پڑا رہتا ہے۔ جب ملک میں پہنچتا ہے تو اسے پھپھوندی لگ چکی ہوتی ہے۔ پاکستان میں پھپھوندی زدہ گٹکا چھالیہ کھانے سے جگر اور پھیپھڑوں کے کینسر کا گراف بتدریج بڑھ رہا ہے۔ حکومتی سطح پر گٹکے کی خرید و فروخت پر پابندی کے بعد گٹکا و چھالیہ کی قیمت بلیک ہونے کی وجہ سے دوگنی ہو گئی ہے۔ مگر پھر بھی گٹکا مافیا حیلے بہانے سے اسے فروخت کر رہا ہے۔


انکشاف کیا گیا ہے کہ پابندی کے بعد گٹکا مافیا اپنے شیطانی نیٹ ورکس کو فعال بنانے کے لیے بچوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ بچے گٹکا پیکٹ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں۔ بعض افراد پابندی کو ہوا میں اُڑاتے ہوئے سرِعام گٹکے، ماوے، مین پوری، جمبو، گودھر، سلور، گولڈن، پٹھان حتیٰ کہ سمگل شدہ بھارتی گٹکے کو بلاخوف و خطر فروخت کر رہے ہیں کیونکہ ان ڈیلرز کا بڑی ڈھٹائی سے ماننا ہے کہ جس دن گٹکا و چھالیہ بکنا بند ہو گئیں اس دن حکومت کو کروڑوں کا نقصان ہوگا محض چھالیہ کی امپورٹ سے حکومت کا کروڑوں کا فائدہ ہے۔

ان مافیاز کا ایک شاطر ہتھکنڈا یہ ہے کہ وہ کسی انجان شخص کو گٹکا نہیں بیچتے۔ پوچھا جاتا ہے کہاں سے آئے ہو اور کس نے بھیجا ہے ؟ گٹکا و چھالیہ صرف پرانے گاہکوں کو بیچا جاتا ہے نیز بیچنے کا وقت بھی مقرر ہے۔ گٹکا و چھالیہ ڈیلر شام کو پیکٹ پوڑیاں فروخت کرتے ہیں۔ دن بھر یہ لوگوں کو فراہم نہیں کیا جاتا۔


مقامی افراد نے انکشاف کیا ہے کہ گٹکا و چھالیہ مافیا نے چھاپوں کے ڈر سے پیکنگ میں تبدیلی کر لی ہے۔ عموماً گٹکا چوکور پیکٹ میں ملتا ہے، جس کو ربڑ بینڈ سے باندھا ہوتا ہے۔ مگر اب پان جیسی تکون پیکنگ میں بیچنا شروع کر دیا ہے گویا کہ وہ پان بیچ رہے ہوں۔

محکمہ پولیس کو خصوصی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ گٹکا مافیا کی بیخ کنی کرے، لہٰذا اسی تناظر میں اب گٹکا و چھالیہ کی تیاری خفیہ طور پر اندرون شہروں، گلی محلوں اور گھروں میں کی جاتی ہے اس کے بعد رگوں میں اترتے زہر کو متمول علاقوں سمیت مخصوص اڈوں پر پہنچایا جاتا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کو دفعہ 337 کے تحت گٹکا فروخت کرنے والے کو کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال اور ایک سے 5 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا مگر حیف صد حیف ایسی پابندیاں ہمیشہ عارضی ثابت ہوتی ہیں۔ اس کے خاتمے کے لیے مستقل آپریشن کی ضرورت ہے۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اسمبلیوں میں گٹکے کی فروخت کے خلاف بِل پیش کیا جا رہا ہے مگر جس پر پابندی لگنی چاہیے، جو سب کی دسترس میں ہے اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں اور وہ ہے چھالیہ۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔