اسلام آباد ایئر پورٹ اور عملے کی بہتات
اسلام آباد کے ہوائی اڈے پرعملے کی بہتات ہے۔ لگتا ہے جیسے بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری اسی ایئر پورٹ کی ہے۔ بے اس وجہ سے مسافروں کو بھی شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حال ہی میں پاکستان جانے کا اتفاق ہوا اور اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر پرواز کے پہنچتے ہی اپنے ملک آنے کی خوشی صاف ستھرے، وسیع وعریض اور منظم ایئر پورٹ دیکھ کر دوبالا ہو جاتی ہے۔
ایک لمبی قطار میں انتظار کے بعد جب پاسپورٹ پر مہر لگوا کر آپ فارغ ہوتے ہیں تو مزید عملہ راہ روکے کھڑا ملتا ہے، جو اس مہر کو چیک کرتا ہے۔ سامان لینے کے لیے آگے بڑھتے ہی لاتعداد مددگار حاضر ہو جاتے ہیں۔ ان مددگاروں کی فیس جمع کرانے کے لیے ایک ڈیسک پر دو سے تین افراد موجود ہیں مگر اپنی خوشی سے پورٹر کو کچھ دینا بھی ضروری ہے۔
واپسی کا سفراس سے کہیں زیادہ دلچسپ ثابت ہوتا ہے۔ آپ اپنے پورے قیام میں شاید اتنے لوگوں سے نہ ملے ہوں جتنا ہوائی اڈے پر چند گھنٹوں میں مل لیتے ہیں۔ ڈراپ لین میں گاڑی سے اترتے ہی آپ کو اتنے لوگ گھیر لیتے ہیں کہ بچوں اور سامان کو سمیٹتے ہوئے آپ عجیب بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام لوگ ایئر پورٹ اسٹاف کی وردی میں ملبوس مسافروں کے منتظر رہتے ہیں۔ داخلی دروازے پر ٹکٹ اور پاسپورٹ دکھانے کے بعد اصل مراحل شروع ہوتے ہیں۔ تمام سامان حفاظتی اسکین مشین سے گزرنے کے بعد آپ کی مکمل ذاتی تلاشی لی جاتی ہے اور آپ پر سکون ہو جاتے ہیں کہ شاید اہم مرحلہ مکمل ہو گیا ہے مگر جلد معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو صرف قسط اول تھی۔
مزید اہلکار ایک مرتبہ پھر آپ کا پاسپورٹ چیک کرتے ہوئے کچھ "سمال ٹاک" بھی کرتے ہیں۔ مثلا کہاں اور کیوں جانے کے ساتھ آپ کے ذریعہ معاش سے متعلق سوالات وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح کچھ سادہ لوح لوگوں اور پہلی دفعہ سفر کرنے والے طالب علموں کو بھی اکثر ایک ڈیسک سے دوسرے پر بارہا بھیجا جاتا ہے اور سٹاف کے مزاج پر پاسپورٹ کا رنگ گہرا اثر رکھتا ہے۔ ان تمام سوالات کی بوچھاڑ اور چیکنگ میں الجھے مسافروں کا وقت ریت کی طرح مھٹی سے پھسلتا چلا جاتا ہے اور ابھی چیک ان کا سلسلہ شروع بھی نہیں ہوا۔
چیک ان وقت ضرور لیتا ہے مگر زیادہ تر عملہ مددگار اور با تہذیب ہی ہوتا ہے۔ یہاں مسافروں کے بھی مختلف رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کوئی افسری جھاڑ کر جلد کام کروانا چاہتا ہے اور کوئی مقررہ حد سے بھاری سامان لے جانے پر بضد رہتا ہے۔ میرے ذاتی تجربے میں تہذیب سے سلام کر کے کسی اصول کو توڑنے کی کوشش نہ کریں تو با آسانی یہ مرحلہ پورا ہو جاتا ہے۔
بوڑنگ پاس لے کر پاسپورٹ کنڑول کے لیے جاتے ہوئے آپ سوچتے ہیں کہ متعدد بار پاسپورٹ چیک کروانے کے بعد بھی ابھی تک پاسپورٹ کنٹرول ہی نہیں ہوا؟ یقیناً نہیں ہوا کیونکہ ابھی تک نہ کسی کمپیوٹر میں کوئی انڑی ہوئی ہے نہ پاسپورٹ پر مہر لگی ہے۔ یہ مرحلہ خیر ہر بین الاقوامی سفر کے لیے ضروری ہے اور قطار میں لگ کر جب آپ اس قدم کو عبور کر لیتے ہیں تو ایک کامیابی محسوس ہوتی ہے اور آپ سکھ کا سانس لیتے ہیں کہ اب بس مقررہ گیٹ پر پہنچنا باقی رہ گیا ہے۔
مگر بدقسمتی سے حقيقت اس کے برعکس ہے۔ مزید کچھ اہلکار آپ کا راستہ روک کر پاسپورٹ کی مہر چیک کرتے ہیں اور اس سے اگلا منظر دیکھ کر بہت سے مسافر خاص کر چھوٹے بچوں والے خاندان کچھ چکرا سے جاتے ہیں۔ ایک اور قطار میں لگ کر تمام دستی سامان اور چھوٹے بچوں کی پریم تک ایک مرتبہ پھر سکین کروائیں۔ ذاتی تلاشی دیں اور ایک مرتبہ پھر سب سمیٹیں۔
یہ مرحلہ پورا کرنے تک انسان اس قدر تھک جاتا ہے کہ سفر کوئی بھیانک خواب لگنے لگتا ہے۔ بہرحال یہ اضافی مرحلہ طے کر کے جب مسافر آخرکار گیٹ کی طرف روانہ ہوتا ہے تو عملے کے مزید کچھ لوگ عین گیٹ کے سامنے سے آپ کو دوسری طرف بھیج دیتے ہیں۔ يعني لاؤنج کی طرف جا کر کچھ خوردو نوش کا آئیڈیا دینے کے لیے بھی کچھ لوگ معمور ہیں جو ناصرف آپ کو اس طرف بھیجتے ہیں بلکہ اصرار بھی کرتے ہیں کہ ابھی بورڈنگ میں بہت وقت ہے۔ باتھ روم سے لے کر بچوں کے کھیلنے کی جگہ تک آپ کو لوگ ملتے رہیں گے، جو بظاہر صفائی اور دیگر کاموں کے لیے ہیں مگر آپ سے آپ کی خوشی سے امداد کی بھی امید رکھتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں اہلکار ہونے کے باوجود زیادہ تر مسافر ایئرلائن اور دیگر عمور میں عملے کی کارکردگی سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔
یہ پورٹر یا صفائی کے عملے کی اپنی خوشی سے کوئی مدد کر دینا شاید کچھ برا نہیں ہے اور نہ ہی اس تحریر کا مقصد کسی کی مفلسی یا ضرورت کو نشانہ بنانا ہے۔ مگر یہ ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ بین الاقوامی ہوائی اڈے ہماری پہچان ہیں اور اتنی زیادہ بے جا رکاوٹیں اور سوال و جواب ایک منفی اثر ڈالتے ہیں۔ بخشیش يا ٹپ کا رواج دنیا بھر میں ہے مگر سراسر مانگنا اور بضد رہنا ہماری پہچان بنتا چلا جا رہا ہے۔
عملے کی بہتات اور بارہا پاسپورٹ چیکنگ بھی کسی حد تک سمجھی جا سکتی ہے کیونکہ شاید ترقی یافتہ ممالک میں جہاں صرف ایک مرتبہ سیکورٹی پوائنٹ سے گزرتے ہوئے آپ گنے چنے لوگوں سے ملتے ہیں اور چند منٹوں میں گیٹ تک پہنچ جاتے ہیں مگر ہمارے جیسے ممالک میں جہاں سیکورٹی ہمیشہ سے ایک بڑا خطرہ رہا ہے اور ہمارے لوگ بھی کوئی دو نمبر راستہ نکالنے میں تقابلی طور پر اونچا مقام رکھتے ہیں وہاں اضافی سیکورٹی ناگزیر ہے۔
مگر اس میں میانہ روی کی گنجاش ضرور نکالی جا سکتی ہے۔ جو مسافر لاکھوں روپیہ خرچ کر کے بین الاقوامی سفر کرتے ہیں، ان کے لیے آسانی پیدا کرنا اہم ہے۔ اگر ہم سیاحت کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو بھی سفر کو آسان اور مراحل کو کم کرنا چاہیے۔ درجنوں لوگوں کے سوالات کے جوابات دینے، بار بار کاغذات نکالنے اور بحفاظت واپس رکھنے میں ناصرف وقت لگتا ہے بلکہ ذہنی کوفت بھی ہوتی ہے۔ ایسے میں کسی اہم کاغذ کے گم ہو جانے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ یہ سارے عوامل جسمانی طور پر بھی مزید تھکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔