یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا
پتا نہیں پاکستانیوں پر طاری ہونے والی مصائب کی رات کب ڈھلے گی۔ جب سے یہ ملک بنا ہے تب سے ہی یہ ''نازک دور‘‘ سے گزر رہا ہے لیکن آج ملک تاریخی نزاکت کے دور سے گزر رہا ہے۔
اقتصادی بحران سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ انڈسٹری بند ہو رہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ آبادی کا بڑا حصہ غربت کی لکیرکے نیچے چلا گیا ہے۔ جن کو روٹی نہیں مل رہی وہ ریوالور لے کر روٹی کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔ جو بچوں کو روٹی نہیں دے پا رہے وہ پنکھوں سے لٹک رہے ہیں۔ جوان بچے اپنے پیاروں کو چھوڑ کر، اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اچھے دنوں کی امید پر اپنا ہی ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ایک طرف راہ چلتی خواتین گلیوں اور بازاروں میں غیر محفوظ ہیں۔ دوسری طرف ملک میں دہشت گردانہ خود کش حملوں کا بھی آ غاز ہو چکا ہے۔ شہروں کے لوگ سمجھتے ہیں کہ کچے کے علاقے قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ لاہور کے جنرل ہسپتال کے آئی سی یو میں پڑی رضوانہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ کچے کے علاقے اب کچے تک ہی محدود نہیں رہے ہیں۔ ان کے اثرات اب پکے علاقوں میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔
عوام امید بھری نظروں سے سیاست دانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن وہ اپنے مفادات سے اوپر اٹھ کر سوچنے کو تیار نہیں۔ اپنے کیسز ختم کرانے اور مخالفین کے خلاف ویسے ہی کیسز بنانے پر توجہ ہے۔ کوئی میثاق جمہوریت کی بات کر رہا ہے اور کسے میثاق معیشت کی پڑی ہے۔ فی الحال میثاق شفافیت کسی کی ترجیح نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھیں تو وہ بھی اپنے ادارے کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ سیاسی مبصر سوال اٹھا رہے ہیں کہ ''پراجیکٹ عمران‘‘ کے تباہی پر منتج ہونے کے بعد کسی اور تجربے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے مطابق پراجیکٹ عمران کے ذریعے ملک کو اس حال تک پہنچانے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کیوں نہیں لایا گیا۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
عمومی تاثر یہ ہے کہ ملک سیاست دانوں نے چلانا ہے تو پھر کرپشن کو برداشت کرنا ہوگا اور اگر طاقتوروں سے اصلاح احوال کی خواہش کو عملی جامہ پہنانا ہے تو شہری آزادیوں اور آئین کی پابندیوں کو ایک طرف رکھنا پڑے گا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔
عوام توقع کر رہے تھے کہ ملک کے سیاست دان ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ملک میں حالات کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔ غریب عوام کو ریلیف دلائیں گے۔ قانون کی بالا دستی ہوگی، ووٹ کو عزت ملے گی۔ ادارے اپنے اپنے فرائض کی طرف واپس لوٹیں گے۔ ملک کو استحکام نصیب ہوگا لیکن ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ سادگی اپنانے کو تیار نہیں، حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کے موڈ میں نہیں، اشرافیہ کو دی جانے والی ہزاروں ارب روپوں کی مراعات کو ختم کرنے کی بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ غربت سے نڈھال لوگ بجلی کے نرخوں میں ہونے والے اضافے سے ابھی سنبھلے ہی نہ تھے کہ پیٹرول کی قیمت میں بیس روپے فی لیٹر اضافہ کر دیا گیا اسحاق ڈار اسے قومی مفاد قرار دے رہے ہیں۔ بیوروکریسی نے اپنا چہرہ چڑھتے سورج کی طرف کر لیا ہے۔ وفاداری ریاست کی بجائے سیاسی جماعتوں یا اداروں سے وابستہ کر لی ہے۔ ملکی معیشت سسکیاں لے رہی ہے لیکن سرکاری افسران کی اہم ضرورت نئی اور مہنگی گاڑیاں بن گئی ہیں۔
پاکستانی قوم نے ہائبرڈ نظام کے نام پر پچھلے دور میں جو دکھ جھیلے تھے۔ اب ان کے مداوے کی امید کی جا رہی تھی۔ توقع تھی کہ نواز شریف ووٹ کو عزت دینے کا اپنا وعدہ وفا کریں گے۔ آصف علی زرداری جمہوری قدروں کو مضبوط کرتے ہوئے اٹھارہویں ترمیم والی جمہوریت کو مستحکم کریں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ لگتا ہے کہ ان سب نے 'میری سیاست میری مرضی‘ والا رویہ اپنا لیا ہے، جو کام عمران خان سے لیا جاتا تھا وہ خدمات اب شہباز شریف سر انجام دے رہے ہیں۔
ماہرین سیاست بتاتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اقتدار میں ہوتی ہیں تو طاقت کے آگے جھک جاتی ہیں۔ حکومت سے باہر آتے ہی انہیں ووٹ کی عزت، قانون کی بالادستی اور میڈیا کی آزادی کی اہمیت سمجھ آنے لگ جاتی ہے۔ عمران نیازی یاد آتے ہیں تو نجانے کیوں دھیان منیر نیازی کی طرف چلا جاتا ہے جو کہا کرتے تھے: ''کج شہر دے لوک وہ ظالم سن، کج سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘
عمران خان نے اپنے ہاتھوں اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ اپنی پالیسیوں کی وجہ سے اپنی جماعت کو عبرت ناک انجام سے دوچار کرا یا۔ اور اب ''خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں‘‘ والی صورتحال سے دوچار ہیں۔ بقول شخصےان کا قصور غالبا یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو سچ مچ وزیر اعظم سمجھ بیٹھے تھے۔ ان کو کئی اہم امور کی اطلاع ٹی وی سے ملتی تھی۔ اپنے مقدمات کے دفاع میں ان کے جواب سنیں تو لگتا ہے کہ ان کو کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ لوگ خود سے ان کو بغیر بتائےان کے کام کر رہے تھے۔ ''میرا کوئی قصور نہیں‘‘ اس سادگی پہ کوئی نہ مر جائے اے خدا۔ اب ان کی بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔ ان کے مستقبل کا راستہ نا اہلی یا پس دیوار زنداں کی طرف آ نکلا ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں عمران خان کے ووٹ بینک کو نوچنے کی تیاریوں میں ہیں۔
مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم کی جماعتیں طاقتور حلقوں کی خوشنودی کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ مستقبل میں بننے والی حکومت میں اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ یقینی بنانے کے لیے پی ڈی ایم اپنے چھبیس نکاتی لائحہ عمل کو بھی بھول چکی ہے۔ امتیاز عالم کے بقول مقتدر حلقوں کی خوشنودی کی اس دوڑ میں شہباز شریف نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کا مستقبل تو روشن ہے لیکن ان کی تابعداری کی وجہ سے ان کے اپنے بھائی کی وزارت عظمی کے امکانات دھندلا رہے ہیں۔
شہباز شریف کی حکومت نے جاتے جاتے صرف دو دنوں میں تریپن بل منظور کر ڈالے ہیں۔ شہری آزادیوں اور سویلین بالا دستی کو محدود کر دینے والی قانون سازی پر پیش رفت اس تیز رفتاری سے نظر آئی کہ اس سلسلے میں ان میں سے کئی بلوں پر سٹینڈنگ کمیٹیوں میں بحث ہوئی اور نہ ماہرین سے مشاورت کی گئی اور تو اور اس سلسلے میں ایوان کو بروقت آگاہ کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ حال ہی میں، ترمیم شدہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923 جس کے بارے میں انسانی حقوق کے پاکستانی کمیشن کا خیال ہے کہ یہ اپنے دائرہ کار کے لحاظ سے ایک ظالمانہ قانون ہے۔
کمیشن کے مطابق اگر انٹیلیجنس ایجنسیوں کو شبہ ہو کہ اس قانون کے تحت کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو اِنہیں بغیر وارنٹ کسی بھی مقام میں داخل ہو کر کسی شخص یا مقام کی تلاشی لینے کے وسیع تر اختیارات حاصل ہیں۔ اس کا سب سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے عوام کی خلوت کا حق متاثر ہو گا جو اُنہیں آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت حاصل ہے۔ مزید برآں، بعض تعریفوں کو وسیع کرکے یہ قانون ایسے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے جن کا جُرم سرزد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ قانون کے تحت، جُرم کے لیے اُکسانے، سازش کرنے، کوشش کرنے، مدد کرنے یا اس کی حوصلہ افزائی کرنے‘ کو جُرم قرار دیتے ہوئے، ترامیم نے مستقبل میں اختلاف رائے کرنے والوں اور سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کی راہ اور زيادہ ہموار کر دی ہے۔
اگرچہ عدلیہ کی طرز عمل کی مکمل حمایت کرنا آسان نہیں ہے لیکن عدلیہ پر جو گزر رہی ہے، وہ بھی ایک دکھ بھری داستان ہے۔ انصاف کے ایوانوں میں پیدا ہونے والی تقسیم جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہے۔بعض قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ ملک کو اس حال تک پہنچانے میں عدلیہ کا بھی کردار ہے لیکن اس کے باوجود عدلیہ کے فیصلوں کی جس طرح توہین ہو رہی ہے، جس طرح آئین کا تماشا بنایا گیا ہے، وہ بھی کوئی اچھی مثال نہیں ہے۔
پاکستان میں مین سٹریم میڈیا بھی بڑی حد تک طاقت کے آگے سرنگوں ہو چکا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر چلنے والے سرکاری اشتہاروں کی بھرمار میں نجی ٹی وی اور پی ٹی وی کا فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔کہیں کہیں جابر سلطان سے پوچھ کر کلمہ حق کہنے والے تو موجود ہیں لیکن پاکستانی میڈیا میں بڑی حد تک اختلافی آوازیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ ایک اشارے پر سارے ٹی وی چینلوں سے ملک کی مقبول ترین پارٹی کے سربراہ کا نام اور تصویر غائب ہو جاتی ہے۔ کئی ہفتوں کے بلیک آؤٹ کے بعد حکومت بڑی معصومیت سے کہتی ہے کہ یہ حکم ہم نے تو نہیں دیا۔ صحافتی تنظیموں کو یہ خوف لاحق ہے کہ مین سٹریم میڈیا کے بعد اب یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو بھی لگام ڈالے جانے کا اندیشہ ہے۔
قوموں کی زندگی میں ایسا وقت ضرور آتا ہے، جب قوم کے لیڈروں اور پالیسی سازوں کو حتمی طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی، ادارہ جاتی یا پارٹی کے مفاد کا ساتھ دیں گے یا قومی مفاد کے لیے کھڑے ہوں گے بد قسمتی سے پاکستان کے قومی منظر نامے کی جو تصویر اس وقت ہمیں دکھائی دے رہی ہے، وہ کوئی بہتر منظر کی عکاسی نہیں کر رہی ہے۔ دعوے نعرے اور تقریریں تو بہت ہیں لیکن سچی بات یہ ہے کہ
’’یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا‘‘
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔