پيپلز پارٹی اور ن ليگ ميں اقتدار کی کشمکش
ڈی ڈبلیو اردو کے نامہ نگار رفعت سعید کے مطابق انتخابات جوں جوں قریب آ رہے ہں پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔
سابق وزير اعظم نواز شريف کے وطن واپسی پر اپنی سياسی سرگرمیوں کے دوبارہ آغاز، ايم کيو ايم رہنماؤں کے ساتھ ملاقات اور اتحاد کے قیام کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ايم کيو ايم کے خلاف چار آپريشن کروانے والے نواز شريف اس جماعت کے لیے اصل میں کيا خيالات رکھتے ہيں؟
گو کہ یہ خیالات ڈھکے چھپے نہیں مگر اس مرتبہ انہوں نے يہ اتحاد انہيں ’’قوتوں‘‘ کے کہنے پر کيا ہے جو انہيں وطن واپس لانے میں شامل ہیں۔آپ کو ياد ہوگا کہ ماضی ميں ايم کيو ايم کا ’’ہاتھ مانگنے کے لیے ہر بڑے سياست داں کو ايم کيو ايم کے مرکز پر حاضری‘‘ دينا پڑتی تھی، مگر اس جماعت کی تقسيم اور الطاف حسين سے بغاوت کے بعد اب ايم کيو ايم کی وہ حيثيت نہيں رہی۔ اسی وجہ سے اس جماعت کے وفد کو لاہور طلب کر کے ن ليگ سے اتحاد کروايا گيا،کيونکہ اس نئے سياسی منظر نامے کے مطابق، ايم کيو ايم سين کی”ڈيمانڈ" اور "فليور "کے طور پر ضروری تھی، کسی کمزور سياسی جماعت کی حيثيت آپ خود سمجھ سکتے ہيں۔
جبکہ بلوچستان کی سياسی منڈی ميں طاقتور، نواب، خان اور سرداروں کی حيثيت اور وزن کی وجہ سے ان کی خريداری کے لیے نواز شريف کو اپنے بھائی اور صاحبزادی کو ساتھ لے کر دو دن کوئٹہ ميں قيام کرنا پڑا اور کئی سرکردہ لوگوں کو ن ليگ ميں شامل کروا ليا۔ یہ کہنا غلط نہيں ہوگا کہ بلوچستان ميں ان دنوں سياسی مفادات، مفاہمت خريدنے کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ ويسے تو سياست دانوں کو، عوامی اور ان کےمسائل سے کوئی دلچسپی نہيں ہے، مگر صوبہ بلوچستان کےسياست دان بھی اس عدم دلچسپی ميں سب سے آگے ہيں۔
مياں نواز شريف 2024 کے انتخابات کی تياری کے لیے اور اپنی حکومت بنانے کے مشن پر اگلے مرحلہ ميں، کے پی کے اور آزادکشمير، گلگت بلتستان ، جائيں گے۔ ملک کی تمام سياسی جماعتوں اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے تعلق کو سمجھنے کے لیے، 1988سے لے کر 2023 تک گزشتہ 36 سالوں ميں ملک گير سياست،حکومتوں کی تبديليوں، اسٹبلشمنٹ کے کردار اور ہر ادوار ميں مقتدر قوتوں کا آلہ کار بنے والی سياسی جماعتوں کے کردار کو ضرور سامنے رکھنا ہوگا۔ پاکستان میں ہر سياسی بحران ميں آرمی چيف کا عہدہ ايک ’’اسٹيک ہولڈر " کے طور پر سامنے آيا۔ تمام ہی سياسی رہنما اور پارٹياں اقتدار کے حصول کے ليے ان کا ''بلو آئٹ بوائے‘‘ بنے کی کوشش ضرور کرتی ہيں، مگر کاميابی کسی کسی کو ملتی ہے۔
چھوٹی جماعتوں کے ساتھ بڑا اتحاد
مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم کا دائرہ کار بھی بڑھا لیا ہے اوراب وہ سندھ میں پیپلزپارٹی کے خلاف ایک سیاسی اتحاد تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف ہے، جس کے لیے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیوایم کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ سمیت دیگر معاملات پرطے پا رہے ہیں تو دوسری طرف نوازشریف نے بلوچستان کا دورہ کرکے وہاں بھی سیاسی جوڑتوڑ کا آغاز کر دیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ ن کو متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی نوازشریف سے ملاقات میں مل کر چلنے پراتفاق کر لیا گیا ہے۔ یوں مسلم لیگ ن نے ہرصوبے میں اپنے قابل ذکرمینڈیٹ کے لیے راہ ہموار کرلی ہے۔
موجودہ سیاسی منظرنامے اورتبدیلیاں
ملک کے موجودہ سیاسی منظرنامے کی بات کریں تو بظاہر ہر چیز پہلے سے طے شدہ دکھائی دیتی ہے۔ گو کہ پیپلزپارٹی کے کی جانب سے فکس میچ کے الزامات کو مسلم لیگ ن کے اہم رہنماؤں نے قبول بھی کیا، یہاں تک کہ خواجہ آصف نے نجی چینل کو انٹرویو میں یہ تک کہہ دیا کہ 16 ماہ حکومت میں ساتھ رہنے کےبعد بھی پیپلزپارٹی کو یہ احساس نہ ہوا کہ یہ فکس میچ ہے۔ گوکہ ایک بار پھراسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں سیاسی باگ دوڑ دکھائی دے رہی اورسیاسی جماعتوں کو محدود حد تک مینورنگ Maneuvering کی آزادی دی گئی ہے لیکن سیاسی بساط کی تمام چالیں پہلے سے طے شدہ ہیں۔
مسلم لیگ ن اوراسٹیبلشمنٹ کے روابط
تحریک انصاف کی اقتدارسے بے دخلی اورپھرسولہ ماہ کی پی ڈی ایم اورپیپلزپارٹی کے اتحاد پر مبنی حکومت میں مسلم لیگ نون اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہترکرنے میں کامیاب ہوگئی جس کا کریڈٹ بلاشبہ شہبازشریف کو جاتا ہے کہ انہوں نے دوطرفہ کوششوں سے نہ صرف اپنے بھائی اورپارٹی قائد میاں نوازشریف سے اسٹیبلشمنٹ کے مطالبات منوائے، وہیں دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ سے بہتر ڈیل حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
نوازشریف کی وطن واپسی کے بعد یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ اس وقت مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں اورماضی کے شکوے شکایت کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ اس ساری صورتحال نے مسلم لیگ ن کو ایک سیاسی اعتماد فراہم کر دیا، جس کے بعد وہ آئندہ الیکشن میں الیکٹیبلز کے بجائے نوازشریف کے چہرے پر الیکشن لڑے گی۔ اس تبدیلی کےسبب ہی تحریک انصاف سے علیحدہ ہونے والے جہانگیر ترین اورعلیم خان گروپ کومسلم لیگ ن میں خوش آمدید نہ کہا گیا، جس کے بعد استحکام پاکستان پارٹی تشکیل پائی۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کو مسلم لیگ ن میں شامل تو کرلیا گیا لیکن ان کا سیاسی مستقبل کچھ زیادہ روشن دکھائی نہیں دے رہا۔
مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی میں کشمکش کی وجہ
16 ماہ اقتدار میں ساتھ رہنے والی پاکستان کی دوبڑی سیاسی جماعتوں میں دوریاں کوئی ناسمجھ آنے والی بات نہیں۔ دونوں ہی اقتدار کے ایوان تک رسائی چاہتی ہیں اور اسی وجہ نے انہیں حلیف سے حریف بنادیا ہے۔ ویسے بھی سیاست میں نہ دوست مستقل ہوتے ہیں نہ ہی دشمن۔ وقت اور مفادات آپ کو کسی کے ساتھ یا کسی کے خلاف کھڑا کر دیتے ہیں۔ 16 ماہ کی ورکنگ ریلیشن شپ دہائیوں پرمحیط سیاسی دشمنی کو دوستی میں نہیں بدل سکتی۔ یہ بات دونوں جماعتوں کی قیادت کو اچھی طرح معلوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں نے وزارتوں کی تقسیم بھی اسی نہج پرکی تھی کہ مسائل پیدا نہ ہوں اوراتحادی حکومت اپنی مدت مکمل کر لے۔ تاہم اب دونوں جماعتوں کے درمیان 16 ماہ کی کارکردگی کا جواب دینا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
مسلم لیگ ن کا بیانیہ اورپیپلزپارٹی
مسلم لیگ ن نے اپنے سیاسی بیانیے نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کی کارکردگی کو نمایاں کیا ہے جبکہ 16 ماہ کی حکومت کو مجبوری کا نام دیا ہے۔ساتھ ہی وہ 16 ماہ کی کارکردگی کے سیاسی Baggage کو اتحادی حکومت میں شامل تمام جماعتوں کے ساتھ شیئر کر رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کا بیانیہ کہ حکومت تو مسلم لیگ ن کی تھی، ان کا وزیراعظم اور وزیرخزانہ تھا کہ جواب میں مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی فرارکی راہ دینے پرآمادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت پیپلزپارٹی کے اس بیانیے کو ہر جگہ کاونٹر کرتی نظر آتی ہے۔
بلاول بھٹو کا نیا بیانیہ
دوسری طرف بلاول بھٹو ایک نئے بیانیے کے ساتھ میدان میں آئے ہیں کہ تین مرتبہ والے وزیراعظم کے بجائے ایک نوجوان کو وزیراعظم منتخب کریں۔ اپنے سیاسی بیانات میں بلاول خاصے جارحانہ بھی نظرآئے اور مسلم لیگ ن کی قیادت پر طنز وتنقید کے نشترچلائے۔ ''پرانے بابے اب دعائیں کریں اورسیاست نوجوانوں کے حوالے کر دیں‘‘ کی بات کرکے بلاول بھٹو نے نہ صرف مسلم لیگ ن کی قیادت کو نشانے پررکھ لیا ہے، وہیں مولانا فضل الرحمان بھی اس کی زد میں آتے دکھائی دیے ہیں۔ بلاول کے اس بیانیے کو خود پیپلزپارٹی میں بھی پوری طرح قبولیت نہیں ملی ہے اور بہت سے ارکان اس بیان کا دفاع کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے نظر آتے ہیں۔
''بلاول بھٹو کی وزارت عظمیٰ کی خواہش پوری نہ ہونے کی وجوہات‘‘
جوانی کا جوش کہیں یا سیاسی ناپختگی بلاول بھٹو اپنے لیے سیاسی راہ ہموار کرنے کے بجائے اپنی مشکلات میں اضافے کا سبب بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اپنے والد آصف زرداری کی مرضی کے برخلاف بلاول نے پی ڈی ایم حکومت میں شمولیت اختیار کرکے وزارت خارجہ کا منصب سنبھالا اس کے بعد بھی متعدد بار بلاول بھٹو اورآصف زرداری کی سوچ اوراقدامات میں واضح فرق نظر آیا ہے۔ ماضی میں سابق آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے ساتھ بھی بلاول بھٹو کے خوشگوار رابطوں کی خبریں بھی گرم رہی ہیں۔ وزير خارجہ بنے کے بعد بلاول کو گمان ہوگيا کہ وہ اپنے نانا اور والدہ کی طرح وزير اعظم بن جائيں گے۔ انہيں اندازہ نہ ہوسکا کہ اسٹبلشمنٹ نواز شريف کے ساتھ 2018 کے انتخابات ميں زيادتی کا اعتراف کرکے اس کا ازالہ کرنے پر اتفاق کر چکی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔