معاشرے کی سیاسی مقاصد کے لیے فرقہ واریت میں تقسیم اور اکثریت کا ظلم
معاشرہ سیاسی اور فرقہ وارانہ لحاظ سے اکثریت اور اقلیت میں تقسیم رہا ہے، لیکن جمہوریت کے بعد جب لوگوں کو ووٹ کا حق ملا تو انہوں نے اس حق کی بنیاد پر اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں کو منتخب کیا۔
جمہوری روایات اور اداروں نے اکثریت اور اقلیت کے درمیان فرق پیدا کیا۔ سیاسی جماعتوں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اکثریت کے ذہن کو تبدیل کر کے اسے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ سیاسی مفکرین نے 'اکثریت کے ظلم‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔
کچھ مفکرین نے اکثریت کے ظلم کا مفہوم بدل کر اس پر بحث کی ہے کہ اکثریت کی تعریف کیا ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ پچاس فیصد لوگ ایک نظریے پر متفق اور متحرک ہوں اور دوسرے پچاس فیصد لوگوں کو خاموش اکثریت کا نام دے کر ان کے نظریے کو نظر انداز کر دیا جائے۔ کچھ سیاسی دانشور حکمران طبقوں کے ظلم کا ذکر کرتے ہیں، جن کے پاس فوجی طاقت اور وسائل ہوتے ہیں اور جو اکثریت کو قابو میں رکھتے ہیں۔ لیکن جب معاشرے میں کوئی بحران ہو یا ہنگامی صورت حال ہو، تو حکمران طبقے کو عوام کی اکثریت کی مدد درکار ہوتی ہے اور پھر انہیں جذباتی طور پر اس قدر بھڑکایا جاتا ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے ریاست کا ساتھ دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر امریکہ کی 1812ء میں جب میکسیکو سے جنگ ہوئی، تو امریکہ کی اکثریت نے جنگ کی حمایت کی اور بالٹی مور کے ایک ترقی پسند صحافی کو، جس نے جنگ کی مخالفت کی تھی، قتل کر دیا تھا۔ اسی صورت حال کو ہم 1914ء کی پہلی عالمی عظیم میں بھی دیکھتے ہیں۔ یورپی ممالک کی عوامی اکثریت جنگ کی حامی تھی اور جو اس کے مخالف تھے، انہیں وطن کے غدار کہہ کر ذلیل کیا گیا تھا۔
فرانس کے ایک سوشلسٹ کو جنگ کی مخالفت کے جرم میں عوام نے قتل کر دیا تھا۔ امریکہ میں اکثریت کے ظلم کی مثالیں ہمیں سفید فام اکثریت اور افریقی غلاموں کے درمیان ملتی ہیں۔ افریقی غلاموں کے کوئی حقوق نہ تھے۔ اس لیے ذرا سے شک و شبے کی بنیاد پر عوام اکٹھے ہو کر خود ہی انہیں سزائیں دیتے تھے۔ پھانسی دے دینا یا جسمانی اذیت دے کر مار ڈالنا، اس کا عام رواج تھا اور اکثریت کا یہ ظلم قانون سے بالا تر تھا۔
اکثریت کے اس ظلم کو ہم یورپی ڈکٹیٹرشپ میں بھی دیکھتے ہیں۔ ہٹلر کی نازی حکومت کے دور میں یہودیوں کے کاروبار کو ختم کر دیا گیا اور ان کا قتل عام بھی کیا گیا۔ یہی مظالم موسولینی کی حکومت کے دور میں اٹلی میں بھی پیش آئے۔ اس صورت حال کو ہم ایشیا اور افریقہ میں آمرانہ دورِ حکومت میں بھی دیکھتے ہیں۔
سیاست دانوں اور مفکرین نے یہ کوششیں ضرور کیں کہ اکثریت کے ظلم کو کیسے روکا جائے۔ ایک طریقہ تو یہ تھا کہ انتخابات کے ذریعے اکثریت کی نمائندگی منتخب ہونے والے نمائندوں کو دے دی جائے اور وہ اسمبلی میں بحث و مباحث کے دوران اکثریت کو نظرانداز کر کے قانون کی بالادستی قائم کریں، اقلیتیوں کو تحفظ دیں اور عام لوگوں کو انصاف دلائیں۔ لیکن یہ طریقہ بھی پوری طرح سے کامیاب نہیں ہو سکا۔ خاص طور سے ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں جہاں اراکین اسمبلی اکثریت کی خوشنودی کے لیے نہ تو اقلیتوں کا تحفظ کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں انصاف دلاتے ہیں۔ اگر مذہبی معاملات ہوں، تو اکثریت کی رائے پر عمل کرتے ہوئے ان میں مداخلت نہیں کرتے۔
اکثریت کے ظلم کو روکنے کے لیے دوسرا طریقہ جو استعمال کیا گیا، وہ یہ تھا کہ انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کو اختیارات دے کر اکثریت کے ظلم کو روکا اور لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ یورپ کی لبرل جمہوریت میں یہ عمل کامیاب رہا۔ لیکن ایشیا اور افریقہ کے پسماندہ ممالک یں اکثریت کے ظلم کو روکا نہیں جا سکا۔
اکثریت کے ذہن کو بدلنے میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ خاص طور سے پسماندہ ممالک جہاں عوام کی اکثریت ناخواندہ ہوتی ہے اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے ان میں سوچ اور فکر کی کمی ہوتی ہے۔ انہیں جذباتی طور پر بھڑکا کر سیاسی اور مذہبی رہنما اپنے مفادات پورا کرتے ہیں۔ اس کی مثال ہمیں بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں میں ملتی ہے۔ جذبات میں آ کر عوام کا مجمع قتل و غارت گری اور توڑ پھوڑ میں ملوث ہو جاتا ہے۔ اکثریت کے اس ظلم کی وجہ سے معاشرے کا سیاسی استحکام ٹوٹ جاتا ہے، اور لوگوں میں ڈر اور خوف پیدا ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی روزمرہ کی زندگی میں سکون اور اطمینان ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ ڈر اور خوف آزادی رائے کو ختم کر دیتا ہے۔ معاشرے میں نئی فکر کے راستے بند کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرہ تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوتا چلا جاتا ہے۔
اکثریت کا یہ ظلم اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب معاشرے میں جمہوری روایات اور ادارے مضبوط ہوں۔ سیاسی رہنما اکثریت کی خواہشات پر عمل کرنے کے بجائے معاشرے میں درست اور صحت مند روایات قائم کریں۔ لیکن ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ روشن خیال اور ترقی پسند بااختیار حکمران اکثریت کے ظلم کو ختم کر کے معاشرے کی اصلاح کریں۔ جیسے مصطفیٰ کمال اتاترک نے ترکی کو قدامت پرستی سے نکال کر جدید ریاست میں تبدیل کیا۔ سنگاپور کے رہنما لی کُوآن ژُیو نے آمرانہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے سنگاپور کو جدید ریاست بنایا اور وہاں جمہوری روایات بھی فروغ پا رہی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور اکثریت کے درمیان جو تعاون ہے، اس کی وجہ سے اکثریت کے ظلم کو روکا نہیں جاتا بلکہ ان کے سامنے ریاستی ادارے بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہ گٹھ جوڑ پاکستانی معاشرے کے لیے ایک بڑے خطرے کی علامت ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔