سوشل میڈیا جذبات محبت کھا گیا

سوشل میڈیا کے سمندر میں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں رہی۔ یہ سوچنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگتا کہ کوئی جا رہا ہے تو جائے۔ مجھے تو کوئی اور مل جائے گا۔ سوشل میڈیا کے توسط سے میرے پاس آپشنز تو موجود ہیں۔

سوشل میڈیا جذبات محبت کھا گیا
سوشل میڈیا جذبات محبت کھا گیا
user

Dw

خط لکھنے کا زمانہ بہت سچا محسوس ہوتا ہے۔ پہلے فرط محبت سے کاغذ تلاش کیا جاتا تھا پھر کسی فلمی سکرپٹ کی مانند یہ سلیکٹ کیا جاتا تھا کہ کتنا اور کیا لکھا جائے گا۔ تحریر میں زندگی کے فلسفے، شاعری، چیدہ چیدہ باتوں سے اتنی جان ڈالی جاتی تھی کہ لکھنے والا سامنے بیٹھا محسوس ہوتا تھا۔بسا اوقات خط کو عقیدت سے خوشبو بھی لگائی جاتی تھی۔ بعدازاں بےچینی کی کیفیت کہ جواب کب آئے گا، کیا آئے گا، ہر وقت ڈاکیے کے انتظار میں آنکھیں پتھرا جاتی تھیں۔ گویا کہ انتظار کسی سے محبت جانچنے کا اک پیمانہ تھا۔

مرور زمانہ ٹیکنالوجی نے جب اپنے پنجے گاڑے تو جدید انسان کا اہم ٹاسک انسانوں کو باہم ایک پلیٹ فارم پر لا کر گفت وشنید کا موقع فراہم کرنا تھا۔ اس مسئلے کو سوشل میڈیا کی مدد سے ممکن بنایا گیا۔ سوشل میڈیا نے دوستی کو ایک نیا رنگ و ٹائٹل دیا۔ دوست سوشل میڈیا فرینڈز کہلوانے لگے اور محافلِ یاراں محدود ہو کر سوشل میڈیا گروپس میں ڈھل گئیں۔


آج دوستی کا لفظ موجود تو ہے مگر چاشنی بہت کم ہے کیونکہ وقت گزارنے کے بہت سے ذرائع آس پاس موجود ہیں۔ وہ بھی کیا دن تھے، جب جھگڑے کے بعد اگلی صبح تمام رنجشیں بھلا کر دوستیاں کر لیتے تھے، گلی کی نکڑ پر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا دیتے اور کہتے ''چلو کوئی بات نہیں۔‘‘

سچ بات ہے کہ ٹیکنالوجی نے دوستی کا مفہوم تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ اب آف لائن، آن لائن کے چکروں میں کھو گئے ہیں۔ انسان چونکہ معاشرتی حیوان ہے اس لیے محض انٹرنیٹ پر دکھ اس طرح سے نہیں بانٹے جا سکتے جیسا کہ روبرو ملاقات کی صورت میں کم ہوتے تھے۔ کسی کو کوئی الم پہنچتا تو شام کو دوستوں کی ایک بیٹھک ہوا کرتی تھی، جس میں سارے تفکرات بھلا دیے جاتے اور پریشان حال کو کندھے پر ایک تھپکی دی جاتی تھی یہ ایسی جادوئی تھپکی ہوتی تھی، جو حوصلہ سے معمور ہوا کرتی تھی، جس کا جوڑ کسی مہنگی ٹینشن والی دوائی کے برابر ہوا کرتا تھا۔


آج کل سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا میں ہر چیز مصنوعی ہے حتی کہ احساس بھی۔ سوشل میڈیا لاکھوں انسانوں کا مجمع ہے۔ نت نئے چہرے، اعلی اسٹیٹس، ہائی فائی اسٹینڈرڈ کے لوگ آپ کو ملیں گے۔ کون کس خاندان سے ہے، ماضی کیا ہے۔ کچھ معلوم نہیں۔ یہ ایسی دنیا ہے کہ جس نے بے پرواہ بنا ڈالا ہے۔ کوئی بلاک ہو رہا ہے تو کوئی ان فرینڈ۔کسی کو کسی کے جانے کی فکر نہیں۔

کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ فلاں شخص کیوں نالاں ہوا ہے اور کیوں رابطہ اور تعلق منقطع کیا ہے کیونکہ قاطع تعلق کو معلوم ہے کہ یہ نہیں تو اور سہی اور نہیں تو اور سہی۔ پہلے پہل ناراضگی کسی صدمے سے کم نہیں ہوتی تھی۔ اپنے دوستوں کو منانے کے لیے باقاعدہ منصوبے بنائے جاتے تھے۔ آفس میں سرپرائز پارٹیز منعقد کی جاتی تھیں۔ من پسند تحفے تحائف کی خریداری کی جاتی تھی۔


ڈیجیٹل دور میں مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایموجیز کیک اور انٹرنیٹ وائرل تصاویر شیئر کر دی جاتی ہیں۔ یوں جذبات، کیفیات، خلوص کا بیڑا غرق تقریباً ہو چکا ہے کیونکہ موسمی دوستوں کے ٹرینڈ کا دور دورہ ہے۔ بلاشبہ سوشل میڈیا نے ''وے آف ایکسپریشن یعنی اظہار'' کو آسان اور فوری بنا دیا ہے۔ آپ کے دوست صرف ''ایک اسٹیٹس'' کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔ مگراس عمدہ پیش رفت کے ساتھ ساتھ نمائش اور نرگسیت کا مرض بھی عام ہوا ہے۔ سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ واٹس ایپ گروپ بنا لیے جاتے ہیں اور کھایا پیا ادھر ہضم کیا جاتا ہے۔ آج یہاں سیر و تفریح کے لیے گئے۔ مہنگے برانڈز کی شاپنگ ہوئی۔ باقی ممبران واہ، واؤ، بہت خوب کہہ کر زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ اب جس کی جیب اتنی اجازت نہیں دیتی اس کے دل میں اک خلش سی پیدا ہو جاتی ہے پھر یہ کیفیت اسے اپنے رفقاء سے دور کر دیتی ہے کہ''میں اس سرکل کے قابل نہیں۔''

اگر عوام سے پوچھا جائے کہ کیا سوشل میڈیا سے دوستی کا معیار اور محبت کے جذبات متاثر ہوئے ہیں تو بلاتردد 60 فیصد کا جواب اثبات میں ہو گا کیونکہ سمارٹ فون کا زیادہ استعمال افراد کو غیر سماجی اور غیر صحت بخش بنا رہا ہے۔ اس پلیٹ فارم پر بات چیت آمنے سامنے نہیں ہوتیں نہ ہی بالمشافہ عشق نہ ہی ایک دوسرے کے گھر آنے جانے والے دوست۔


ہزاروں فالورز ہونے کے باوجود لوگ تنہا ہیں۔ سوشل میڈیا پر رابطے ہی رابطے ہیں مگر کرنے کی باتیں کچھ نہیں۔ وقت کی پکار ہے کہ حلقہ احباب مختصر مگر مکمل ہو، اب ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوستوں اور سوشل میڈیا دوستوں کے درمیان روابط کی کشمکش کو کس طرح استوار کر سکتے ہیں؟ اس کا آسان حل ''وقت کی تقسیم'' ہے۔ جس دن ہم وقت کی تقسیم میں توازن سیکھ گئے تو دوستی کے باب میں کچھ شکایات نہیں رہیں گی نتیجتاً نہ ہی جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔