خودکشی: ایک گناہ یا مرض

بظاہر ایک بڑی کاروباری شخصیت کی خودکشی کی خبر نے پاکستانی معاشرے کو ہلا کر دکھ دیا تھا۔ تاہم علیم ترین کی ناگہانی موت نے ایک مرتبہ پھر خود کشی سے متعلق ہمارے سماجی رویوں میں بےحسی کو عیاں کیا۔

خودکشی: ایک گناہ یا مرض
خودکشی: ایک گناہ یا مرض
user

Dw

علیم ترین کی ناگہانی موت کے بعد سوشل میڈیا پر ردعمل زیادہ تر مذہبی نکتہ نظر سے خودکشی کی سزا کے اردگرد گھومتا رہا۔ چنانچہ وفات پا جانے والے پر ایک ایسے گنہگار کا لیبل لگا دیا گیا، جس کا نصیب صرف جہنم کا غیض و غضب تھا۔ اس قسم کے تبصروں کو دیکھنے کے بعد اور بطور ماہر نفسیات میں مجبور ہوئی ہوں کہ ان نفسیاتی محرکات کی نشاندہی کروں جو کسی شخص کو اپنی زندگی ختم کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

عموماً خودکشی کی وجوہات بیان کرتے وقت سادہ تشریحات کا سہارا لیا جاتا ہے، جیسے کہ اس شخص کا ایمان کمزور تھا یا وہ ضرورت سے زیادہ جذباتی تھا۔ ان تشریحات پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ زیادہ تر واقعات میں خودکشی کا فیصلہ ایمان اور صبر یا جذباتی پختگی میں پڑنے والی دراڑوں کی وجہ سے راتوں رات نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک طویل عمل ہے جس میں انسان ایک عرصے تک اذیت میں رہتا ہے، وہ لطف، مسرت اور امید کو اپنی زندگی سے دھیرے دھیرے رخصت ہوتے دیکھتا رہتا ہے اور روزانہ مرتا رہتا ہے۔ تنہائی میں ایک طویل عرصے تک اذیتوں سے لڑتا یہ شخص آخرکار ایک دن خودکشی کی شکل میں زندگی کے خلاف ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیتا ہے۔


ڈپریشن جیسے نفسیاتی امراض انسان کی سوچ اور عمل کے زاویوں کو متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈپریشن میں مبتلا شخص کا اپنے، دوسروں کے اور دنیا کے متعلق نکتہ نظر منفی ہونے لگتا ہے۔ اس میں ڈپریشن کی دوسری علامات بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں، ان میں اداسی یا خلا کا احساس، قنوطیت پسندی، مایوسی، بے وقعتی کا احساس، لڑکھڑاتا اعتماد اور کمزور پڑتا حوصلہ شامل ہیں، جو اس شخص پر ناامیدی اور بے بسی کی ایک مستقل کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیپریشن کی جسمانی علامات جیسے تھکن، جسم میں درد، ٹوٹی پھوٹی نیند، بھوک اور جنسی خواہش میں کمی بھی اس پر طاری ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح اس شخص کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی متاثر ہونے لگتی ہیں، وہ کسی ایک چیز پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتا، اس کی یادداشت متاثر ہوتی ہے، اس کی قوت فیصلہ کمزور پڑ جاتی ہے۔ یہ تمام وجوہات اس کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔

کمزور قوت فیصلہ اس بیماری کا اہم جزو ہے، جس کی وجہ سے ڈپریشن میں مبتلا شخص غلط فیصلے اور غلط چناؤ کرنے لگتا ہے۔ ڈپریشن کی وجہ سے ہونے والی خودکشی دراصل کمزور قوت فیصلہ، ناامیدی اور منفی طرز فکر کے مجموعی نتائج کے سبب ہوتی ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے متاثرہ شخص اس بات پر یقین کرنا شروع کر دیتا ہے کہ زندگی کے مسائل اور مشکلات کا واحد حل زندگی کا ہی خاتمہ کر دینے میں مضمر ہے۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈپریشن کی وجہ سے ہونے والی خودکشیوں کو روکا جا سکتا ہے لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب فرد، کمیونٹی اور ریاست، تینوں سطح پر بچاؤ کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ بطور ایک فرد ہمیں ہر وقت مستعد رہنا چاہیے کہ ہماری فیملی یا قریبی سماجی دائرے میں کسی شخص میں شدید ڈپریشن کی علامات تو ظاہر نہیں ہو رہیں۔ یہ اشد ضروری ہے کہ ہم اس شخص سے رابطے میں رہیں، اس کا سہارا بنیں اور ساتھ دیں، نا کہ اسے تنہائی کا شکار ہونے اور مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے کے لیے چھوڑ دیں۔

ڈپریشن کے شکار افراد کو ان کی علامات کے ساتھ ساتھ اس عارضے کو جنم دینے والے جسمانی، ذہنی اور سماجی عوامل اور عام آبادی میں اس کی موجودگی کی شرح سے متعلق آگاہی فراہم کرنے سے ان کو اپنے ذہنی مرض کو بہتر طریقے سے سمجھنے اور تسلیم کرنے میں مدد ملتی ہے، جس سے ان میں صحتیابی کی امید جنم لیتی ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ذہنی صحت سے متعلقہ مسائل کے بارے میں آگہی پیدا کی جائے تاکہ نفسیاتی مسائل سے جڑی سماجی رسوائی کم ہو سکے اور عوام میں ان کے علاج کی جستجو کی راہ ہموار ہو سکے۔


موبائل فون، ریڈیو اور ٹی وی کے پھیلاؤ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پر مینٹل ہیلتھ یا دماغی صحت سے متعلق آگاہی مہم چلانا انتہائی موثر ثابت ہوتا ہے۔ سہل الحصول اور معیاری ہیلتھ سروسز میں اضافہ ذہنی بیماریوں، جن میں ڈپریشن بھی شامل ہے، کی بروقت تشخیص اور علاج پر منتج ہوتا ہے اور یہ خودکشیوں کو روکنے میں ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔ مزید برآں، جس طرح دیگر میڈیکل ایمرجنسی اور ریسکیو سروسز موجود ہیں، اسی طرح خودکشی سے بچاؤ کی ہیلپ لائنز متعارف کرانے کی فوری ضرورت ہے۔ یہ ہیلپ لائنز عموماً خودکشی کی طرف مائل لوگوں کی خودکشی کی کوششوں کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

آخر میں ایک انتہائی اہم بات ان لوگوں سے کہنا چاہتی ہوں جو خودکشی کی خبروں پر سخت اور بے حس قسم کے تبصرے کرتے ہیں۔ میرا ان سے سوال ہے کہ کیا خودکشی جیسے انتہائی قدم پر مجبور کرنے والے حالات پر غور کیے بغیر ایک مرے ہوئے شخص کو تنہا قصوروار ٹھہرانا ایک صائب عمل ہے؟


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔