پانی بچانے کا خیال ہے ہی نہیں
برسات کی رتوں میں ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ گلیاں کوچے جل تھل ہیں۔ یہ دیکھ کر کیا کبھی احساس ہوتا ہے کہ یہ وہی پانی ہے، جس کی کمی کا رونا ہم بیشتر وقت سنتے ہیں؟
ہم سب جانتے ہیں کہ پانی انسانی بقا کے لیے اس دنیا میں سب سے اہم عنصر ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ پینے سے لے کر زراعت اور صنعتی استعمال کے لیے تازہ اور میٹھا پانی نا گزیر ضرورت ہے۔ کرہ ارض کا بیشتر حصہ اگرچہ پانی پر مشتمل ہے لیکن اس دستیاب پانی کا محض چند فیصد ہی انسانوں، جانوروں، زراعت اور صنعتی استعمال کے لیے موزوں ہے۔
بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ زرعی و صنعتی پیداوار میں اضافے کی دوڑ نے دنیا بھر میں پانی کے موجودہ ذخائر پر دباؤ میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مستقبل میں ممالک کے درمیان ہونے والی جنگیں پانی کی وجہ سے ہوں گی، جن کا آغاز کسی حد تک تو ہو ہی چکا ہے ۔
زمین پر موجود میٹھے پانی کے ذخائر ایک قدرتی نظام کے تابع ہیں جسے واٹر سائیکل کہا جاتا ہے، جو روئے زمین پر زندگی کی ضمانت ہے۔ سمندروں سے اٹھنے والے بادل، موسموں کی مناسبت سے بارش اور برف باری کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جن سے دریا، گلیشیئر اور جھیلیں بنتی ہیں، جب کہ اس کا کچھ حصہ زیر زمین آبی ذخائر کا حصہ بن جاتا ہے۔
ان ذرائع سے حاصل شدہ پانی انسانی، زرعی اور صنعتی ضروریات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قدرت کا بنایا ہوا یہی نظام ہمیشہ سے جاری ہے۔ سمندروں میں بہہ نکلنے والا اضافی پانی دوبارہ سے بادلوں کی شکل میں زمین پر پہنچ جاتا ہے۔
گزشتہ ایک صدی میں زمین پر انسانی آبادی میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ جہاں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زمین کے موجودہ وسائل تیزی سے سکڑ رہے ہیں، وہیں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اور پانی کے استعمال میں بے احتیاطی کی وجہ سے عالمی سطح پر قدرت کی بخشی ہوئی یہ نعمت عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو آبادی کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی میسر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ پانی کے بہتر اور جدید انتظام و انصرام کی بدولت کم پانی سے زیادہ سے زیادہ زمین کو سیراب کرنے سے پانی کی بچت بھی کرتے ہیں۔
بیشتر عرب ممالک بھی جن کے پاس صرف سمندر کا پانی ہے اسی کو قابل استعمال بنا کر انسانی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ صرف دبئی شہر روانہ پانچ سو ملین گیلن سمندری پانی کو صاف کر کے اپنی پندرہ لاکھ کی آبادی کو سپلائی کر رہا ہے ۔ لیکن افریقہ، ایشیا اور جنوبی امریکہ کے ترقی پذیر ممالک میں صورت حال دگر گوں ہیں۔ ان خطوں میں انسانی ترقی کے باقی انڈکس کی طرح پینے کا صاف پانی بھی نچلے انڈکس میں آتا ہے۔
برصغیر بشمول پاکستان میں بھی صورت حال بہت حوصلہ افزا نہیں ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا جہاں نہ صرف دریاؤں اور گلیشیئر کی شکل میں پانی کے وسیع ذخائر موجود ہیں بل کہ مون سون کی بارشوں سے حاصل شدہ پانی کو ذخیرہ کرنے کا موثر نظام موجود نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال اس کا بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آبادی کی اکثریت کو صاف پانی کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ گلوبل واٹر آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان کی صرف 36 فیصد آبادی کو پانی میسر ہے۔ 24 بڑے شہروں میں رہنے والے اسی فیصد لوگ پانی کے مسئلے سے دو چار ہیں اور آنے والے وقت میں یہ بحران مزید سنگین دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ایک طرف تو حکومتوں کی ترجیحات عوام کو بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنے کی کبھی رہی ہی نہیں، وہیں دستیاب پانی بھی عوام کی آگہی اور شعور کی کمی کے باعث بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ زرعی شعبہ ابھی تک صدیوں پرانے فرسودہ نظام آب پاشی پر انحصار کرتا ہے وہیں بڑھتی ہوئی آبی آلودگی کے باعث صاف پانی کے موجودہ ذخائر اب ناقابل استعمال ہو چکے ہیں۔
کراچی جیسے دو کروڑ آبادی کے شہر میں پانی کے سنگین مسائل ہیں، جو کہ کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں۔ اکثریتی آبادی، پانی خرید کر روز مرہ کے استعمال میں لاتی ہے۔ پانی چوری ادروں کی ملی بھگت سے ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ ساٹھ ہزار ڈالر کا پانی چوری کر کے بیچا جاتا ہے، جس کا ستر فیصد صنعتی استعمال میں جاتا ہے۔
وہ علاقے جہاں زیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر موجود ہیں، وہاں بغیر کسی منصوبہ بندی کے ٹیوب ویل نیٹ ورکنگ سے پانی مہیا کیا جاتا ہے، جس سے زیر زمین پانی کا حجم مسلسل کم ہو رہا ہے۔ دوسری طرف بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال مون سون کے دنوں میں اربن فلڈنگ کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں بارش کے پانی کو اسٹارم واٹرٹنل کے ذریعے محفوظ کر کے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسے تمام منصوبے زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس طرف سنجیدہ توجہ دیے جانے کا امکان ہے۔
بلوچستان میں تقریباً 13 دریا ہی, جو صرف بارشوں کے دوران ہی رواں ہوتے ہیں۔ اگر بارشوں کے دوران درياؤں ميں پانی جمع کر لیا جائے تو صورت حال بہتر ہو سکتی ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے ميں حکومتی سطح پر کوئی خاص اقدامات کیے گئے نہ حکومت نے ایسے اقدامات کرنے کی حامی بھری کہ جس سے بلوچستان میں پانی کا مسئلہ حل ہو پائے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کچھ پانی جمع تو کرتے ہیں لیکن وسائل کی کمی کے باعث یہ صرف محدود پیمانے پر ہی ممکن ہے۔ پانی کی اہمیت اور ضرورت کے ادراک کے باوجود ہمارے ہاں جس بے دردی سے اس کو ضائع کیا جاتا ہے، اس کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔
تازہ اور میٹھے پانی کے ذخائر کی آلودگی کے خلاف حفاظت سے لے کر انفرادی سطح پر پانی کے استعمال میں کسی نظم و ضبط کا کوئی تصور حکومتی سطح پر تو کیا عوامی سطح پر بھی نہیں ہے۔ گھر، دفاتر میں بارش کے استعمال کے لیے ذخیرہ کرنے کا کوئی نظام یہاں دستیاب نہیں۔ زراعت کے لیے جدید آب پاشی کے نظام، ڈرپ ایریگیشن سسٹم کے ذریعے پانی کے زیاں کو روکا جا سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس پر بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو پانی کی بچت کا کلچر اپنانے کی ضرورت ہے۔
اس احساس کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ روز مرہ کے امور جیسا کہ نہانے دھونے، کپڑے یا برتن دھونے ، گھروں کی صفائی وغیرہ میں ضرورت سے زیادہ جو پانی ہم ضائع کر رہے ہیں ، ہمارے قریب ہی ہم جیسے انسان اس کی چند بوندوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ پانی کی بھری ٹینکی سے بہتا ہوا پانی جو سیوریج میں جا رہا ہے کہیں کسی انسان کا حق تھا جو ہماری ذرا سی بے احتیاطی کی وجہ سے اس تک نہیں پہنچ رہا۔ فراوانی کے دور میں نعمتوں کا ضیاع آنے والے وقت میں تنگی کا اشارہ ہوا کرتا ہے۔ پانی بچانے کا اس سے بہتر وقت پھر نہیں آئے گا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔