سرکاری ہسپتال صحت پر بھاری اور نجی دوا خانے جیب پر بوجھ

صحت کے شعبے پر حکومتی عدم توجہی اور شہریوں کی اس تک مشکل رسائی، اپنے آپ میں ایک سنگین مسئلہ تو ہے ہی، لیکن کسی مربوط نظام صحت کا نہ ہونا سارے معاشرے کے لیے ایک خوف ناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

سرکاری ہسپتال صحت پر بھاری اور نجی دوا خانے جیب پر بوجھ
سرکاری ہسپتال صحت پر بھاری اور نجی دوا خانے جیب پر بوجھ
user

Dw

اپنی بیمار والدہ کے ساتھ لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال میں گزرا وقت بھلائے نہیں بھولتا۔ جب وارڈ کی ای سی جی مشین خراب ہونے کی وجہ سے ایمرجنسی وارڈ سے رابطہ کرنے کو کہا گیا۔ مریضہ جو خود چل کر جانے سے قاصر تھیں، ان کے لیے وہیل چیئر ہی موجود نہیں تھی۔ چار و نا چار وہ میسر ہوئی تو شکستہ راستے پر اسے دھکیلنا تقریباً نا ممکن تھا۔

کوشش بسیار کے بعد ایمرجنسی وارڈ پہنچ کر پتہ چلا کہ ای سی جی کے امیدواروں کی ایک طویل قطار ہے، جہاں گھنٹوں انتظار کرنا پڑے گا۔ ملحقہ بیت الخلاء سے اٹھتی ہوئی شدید بدبو کے بھبکے، سانس لینا بھی محال ہوگیا۔ خدا خدا کر کے جب ہماری باری آئی، تو تب تک ای سی جی اسٹرپ کا رول ختم ہو چکا تھا۔ نیا رول دستیاب ہو ہی گیا، تو زنانہ عملہ ندارد۔


ایک بنیادی ٹیسٹ جس کے لیے پانچ منٹ سے زیادہ کا وقت نہیں لگتا، گھنٹوں بعد تکمیل کو پہنچا۔ اس دوران مرض کی شدت سے نڈھال اپنی ماں کی آنکھوں سے چھلکتی بے بسی دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ میں ایسے میں مسلسل خود کو کوستی رہی کہ میں اپنی بیمار ماں کو اس جہنم میں کیوں گھسیٹ لائی ہوں۔

وارڈ کی حالت اس سے بھی درگوں۔ صفائی ستھرائی کا تو کیا ہی کہنا، طبی عملے کا رویہ بھی ایسا ترش اور ہتک آمیز جیسے وہ لوگ مریض سے نہیں، بل کہ بھکاریوں سے بات کر رہے ہوں۔ دور دراز کے دیہاتوں سے علاج کی غرض سے آئے لا چار مریض ہم دردی کے بول کے لیے ترس رہے ہیں اور ان کے پریشان حال لواحقین ہاتھوں میں پرچیاں اٹھائے ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں، لیکن کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں۔


ان تمام مشکلات سے گزرنے کے بعد متعلقہ ڈاکٹر نے آپریشن کا وقت دینے کے ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ، جراحی کے مطلوبہ آلات کا بند و بست بھی مریض کے لواحقین کو خود ہی کرنا ہے۔ دوسری طرف چوں کہ آپریشن کے بعد مریضہ کو سنبھلنے تک انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں رکھنا ہے اور وہاں پر کوئی بیڈ ہی خالی نہیں ہے۔

بڑی سفارشوں اور خوشامدوں سے یہ تمام مراحل طے ہونے کے بعد، آپریشن تھیٹر پہنچنے پہ معلوم ہوا کہ ابتدائی تشخیص ہی غلط تھی اور اب یہ تمام جان لیوا عمل پھر سے دہرانا ہو گا۔ تب تک میرے صبر کا پیمانہ بھی چھلکنے لگا تھا۔ نا چار ایک نجی ہسپتال کا رخ کیا۔ ادھر سانس لینے کی بھی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ چند دنوں میں لاکھوں روپے خرچ ہوئے، لیکن بہ ہر حال علاج ہو گیا۔


اس کرب ناک وقت میں صحت و نگہداشت کے شعبے کے متعلق ریاست کی ترجیحات کے متعلق میرے دل میں جو خوش گمانی تھی وہ تو دور ہو گئی لیکن، جس مشاہدے نے مجھے زیادہ متاثر کیا وہ خواتین اور بالخصوص نسوانی امراض کے علاج کے لیے فراہم کردہ سہولیات کا ہے۔

گاؤں دیہات سے آئی ہوئی نو جوان عورتیں جنھیں بر وقت علاج کی سہولیات میسر نہیں تھیں، کہیں روایتی دائیوں کے ہاتھ اپنی صحت کا ستیا ناس کروا چکی تھیں یا ان کے اہل خانہ کسی عطائی یا غیر تربیت یافتہ معالج کے ہاتھوں اپنی جمع پونجی لٹوا کر اب شہر کے ہسپتالوں میں خوار ہو رہے تھے۔


کئی ایسے پریشان حال جو زندگی کی امید میں سود پر قرض لے کر یا پھر اپنے اثاثے بیچ کر یہاں ایک دوسری دلدل میں آن پھنسے تھے۔ انھیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جو اپنے تمام وسائل بروئے کار لانے کے بعد علاج کے لیے اس وبال میں آن پھنسے ہیں ان کے آبائی علاقوں میں صحت کی سہولیات کا معیار کیسا ہو گا؟

خواتین کے علاج معالجے کی سہولیات ایک تو ویسے ہی کم ہیں۔ دوسری طرف پدر سری معاشرے میں اس بارے میں دانستہ کوتاہی برتی جاتی ہے۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دوران زچگی عورتوں کی اموات کا تناسب دنیا بھر میں بد ترین سطح پر ہے۔


یہ سب کہانیاں نہ نئی ہیں اور نہ ہی آخری بار لکھی جا رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ، جو ریاست اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے شہریوں پر ٹیکسوں کے انبار لاد رہی ہے کیا اس کے ارباب اختیار یہ سب نہیں دیکھتے؟

آئے روز اخبار اور میڈیا پر یہ خبریں چلتی ہیں کہ فلاں صاحب فلاں ہسپتال کے دورے پر تشریف لے گئے، غیر تسلی بخش حالات دیکھ کر متعلقہ اہل کاروں کو معطل کرنے کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ عوام کو مفت علاج کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیہات میں ہے۔


کبھی نئے ہسپتال بنانے کے وعدے اور کبھی صحت کے شعبے کی بہ تری کے لیے خطیر رقوم کے اعلانات۔ صرف نمائشی اقدامات کر کے گڈ گورننس قائم رکھنے کا تاثر دیا جا رہا ہے، لیکن مسائل جوں کے توں ہیں۔ انہیں حل کرنے کے لیے کسی سطح پر سنجیدہ اقدامات نہیں ہوتے۔ ایسے میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ کیمروں کی چکا چوند کے سامنے دیے گئے ان بیانات کے اثرات نظر کیوں نہیں آتے ؟

ریاست اپنے شہریوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے، جس کا مقصد ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے ایسا ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے، جہاں تمام شہری ایک احساسِ تحفظ کے ساتھ نہ صرف اپنی زندگی بسر کر سکیں بلکہ انہیں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع بھی فراہم ہوں۔تعلیم، حصولِ انصاف اور بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں معاملہ اس کے عین برعکس ہے۔


اوسط آمدن کے لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان میں بلا واسطہ اور بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کوئی ایسی کم بھی نہیں، لیکن اس کے بدلے میں ریاست کی طرف سے شہریوں کو میسر سہولیات کا معیار کیا ہے؟ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ بنیادی تعلیم اور انصاف جیسی ''عیاشیوں‘‘ تک رسائی کا قصہ پھر کبھی سہی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔