جی ٹونئٹی کا اجلاس اور مذاق کا سامان
شان و شوکت سے اختتام پذیر ہونے والے جی ٹوئنٹی اجلاس میں کچھ ایسے کتابچے بانٹے گئے جن پڑھ کر عقل دنگ رہ گئی اور سائنس پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا۔
حال ہی میں دہلی میں جی ٹوئنٹی ممالک کا اجلاس بڑی شان و شوکت کے ساتھ ختم ہو گیا۔ صحافیوں کی ایسے اجلاسوں میں مختلف ممالک سے آئے اپنے ہم پیشہ افراد اور سفارت کاروں کے ساتھ ملاقات ہو جاتی ہے اور ایک نیٹ ورک سا بنتا ہے۔
اس اجلاس کے دوران میری بھی کینیڈا سے تعلق رکھنے والی ایک صحافی کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ نمبروں کا تبادلہ ہوا اور مستقبل میں تعلق رکھنے کے عہد و پیمان کیے گئے۔ اجلاس کے دوران غیر ملکی مندوبین، جس میں سفارت کار اور صحافی دونوں شامل تھے، کو ایک فولڈر دیا گیا، جس میں دو کتابیں بھی شامل تھیں۔
شاید اس اجلاس کی مصروفیت اور گہما گہمی کی وجہ سے ان کو ان کتابوں کے مطالعہ کا موقع دہلی میں نہیں ملا، مگر گھر واپس پہنچ کر جس بھی غیر ملکی مندوب نے ان کتابوں کو پڑھا، ان کو تو مذاق کا ایک موضوع مل گیا ہے۔ کئی افراد تو مسیج کر کے کہہ رہے ہیں کہ ان کو پتا نہیں تھا کہ بھارت میں فائٹر جہاز پتھر کے زمانے میں ہی ایجاد ہوئے تھے، جبکہ ابھی لوہا اور حتیٰ کہ آگ بھی دریافت نہیں ہوئی تھی۔
اب جب میں نے اس کتاب کو دیکھا تو لگا کہ مسند اقتدار پر بیٹھے کسی ذی عزت شخص نے ہمیں بے عزت کرنے اور ہم کو عالمی سطح پر مذاق بنانے کا نادر موقع فراہم کیا ہے۔ اس کتاب میں غیر ملکی مندوبین کو بتایا گیا ہے کہ کئی ہزار سال قبل بھارتی سائنسدان مہارشی بھاردواج نے اپنی کتاب سائنس آف ایروناٹکس میں خلائی سوٹ اور اسے بنانے والے مواد کے بارے میں لکھا تھا۔
اگرچہ وقتاﹰ فوقتاﹰ مؤرخین ایسی لن ترانیوں کو مسترد کرتے آئے ہیں، مگر حکومت کی طرف سے ایسی دستاویزات تقسیم کرنا اور ان کو غیر ملکی مندوبین کے فولڈر میں رکھنا یقیناﹰ تشویشناک امر ہے۔ کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھارت کے ایک ماہر فلکیات نے پہلی صدی قبل مسیح میں مریخ کی سطح پر پانی کا ہونا دریافت کیا تھا۔ اب یہ حضرت مریخ پر کیسے پہنچ گئے تھے، اس کے بارے میں تفصیل نہیں ہے۔
اس میں مزید لکھا ہے کہ مہابھارت کے دور کے کیریکٹرز کورو بھائیوں کی پیدائش ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ مہا بھارت کی جنگ پانچ ہزار سال قبل ہوئی تھی۔ اب ان کو کون بتائے کہ شیشے کی دریافت چار ہزار سال قبل کی ہے۔ ایک اور انکشاف ہے کہ بھگوان کرشن کے بڑے بھائی بلرام کی پیدائش سیروگیسی کے ذریعے ہوئی تھی۔
مجھے اس کینیڈین صحافی کو قائل کرنا پڑا کہ اس کتاب میں لکھی گئی ہر چیز سے اتفاق کرنے کی ضرورت نہیں اور نا ہی بھارت کے لوگ اتنے جاہل ہیں کہ ان پر یقین کریں یا یہ کوئی سرکاری ڈاکومینٹ ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ کشش ثقل کے تصور کی وضاحت سب سے پہلے ایک بھارتی سائنسدان نے کی تھی۔ جان ڈالٹن سے 2500 سال پہلے ایک ہندوستانی اسکالر نے ایٹم دریافت کر لیا تھا۔اب اگر ایٹم دریافت کیا تھا تو اس کا مطلب ہے کہ ایٹم بم بھی بنایا ہو گا۔ مگر آخر اس کو دریائے سندھ کے راستے آئے دن آنے والے حملہ آورں کے خلاف کیوں استعمال نہیں کیا گیا؟ یہ حملہ آور تو چند سو گھوڑوں پر سوار دہلی تک دندناتے چلے آتے تھے۔
جیسا کہ میں نے ابتدا میں ہی بتایا کہ جی ٹوئنٹی جیسے اجلاس لوگوں کو ایک دوسرے سے جڑنے اور روابط استوار کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی ثقافت اور تاریخ سے روشناس ہو جاتے ہیں۔ مگر ایک غلط بیانیے کو بطور شاندار ماضی پیش کرنا، جس میں مناسب تاریخی شواہد بھی موجود نہیں ہیں، نہ صرف تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر شرمندگی کا باعث بھی۔
مندوبین کے فولڈر میں 'بھارت۔مدر آف ڈیموکریسی' اور 'بھارت۔اینشیئنٹ کلچر' نامی کتابچے بھی تھے۔ ان میں واضح انداز میں تحریر ہے کہ قدیم زمانے سے بھارت میں جمہوری روایات موجود ہیں۔ ایک دستاویز میں بھارت کی جمہوری روایات کو 6,000 قبل مسیح بتایا گیا ہے۔ اس قسم کا مطالبہ اکثر ہندوتوا کے ماننے والے کرتے ہیں، جو خود جمہوری روایات کے برعکس کام کرتے ہیں۔
کتاب میں کہا گیا ہے کہ قدیم جمہوری روایت بھارت میں رامائن اور مہا بھارت کے دور میں موجود تھی۔ حکومت کے اس دعوے نے ملک کے کئی مورخین کو حیران اور پریشان کر دیا ہے۔ اس میں وادی سندھ کی تہذیب کو سندھو سرسوتی تہذیب بتایا گیا ہے۔ کتاب کے مطابق مراٹھا لیڈر شیواجی اور مہاراجا پرتاپ اس ملک کے حقیقی ہیروز ہیں نہ کہ دہلی سلطنت کے حکمران، جنہیں دائیں بازو کی ہندو تنظیموں حملہ آور سمجھتی ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ان دونوں کتابچوں میں بھارت میں مسلم حکمرانی کے 1,000 سال کے اہم دور کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ باہر سے آنے والے مہمان کانفرنس کی مصروفیت سے وقت نکال کر مسلم دور کی یادگاروں کو ہی دیکھنے چلے گئے۔ کئی سربراہان مملکت نے تو دہلی کی شاہی جامع مسجد جانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا، مگر ان کو بتایا گیا کہ سیکورٹی کی وجہ سے ان کا جانا مناسب نہیں ہے، مگر وفد کے دیگر افراد ان جگہوں پر حاضری دے سکتے ہیں۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ بھارت ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے، جہاں سائنس اور تاریخ کو توہم پرستی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ تمام تاریخی اور سائنسی اعلانات کو تجربات اور شواہد کی حمایت حاصل ہونی چاہیے نہ کہ تخیل کی۔ یہ کتابیں دنیا بھر میں تمام عظیم سائنسی کاموں کی نفی کرکے اور ان کو اپنے گلے میں باندھ کے نہ صرف مذاق کا سامان فراہم کرتی ہیں، بلکہ بھارت کے اپنے سائنسی مشن جس میں چندریان قابل ذکر ہے، کو بھی مشکوک بناتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔