اب تو حیلے بہانے بھی مہنگے پڑ رہے ہیں

گزشتہ ہفتے پہلی بار میں نے کسی کا ٹویٹ پڑھا کہ اسٹیٹ بینک نے 2020ء میں کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران چھ سو بیس صنعت کاروں اور تاجروں کو نجی بینکوں کے ذریعے دس برس کے لیے تین ارب ڈالر بلاسود بانٹ دیے۔

اب تو حیلے بہانے بھی مہنگے پڑ رہے ہیں
اب تو حیلے بہانے بھی مہنگے پڑ رہے ہیں
user

Dw

اس ٹویٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ اب یہ معاملہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے ہے۔ میں یہ سمجھا کہ موصوف جوش میں تین ارب روپے کو شاید تین ارب ڈالر لکھ گئے ہیں۔ مگر جب اس ٹویٹ کے دو تین دن بعد یہ خبر تفصیلاً اخبار ڈان میں شائع ہوئی تب احساس ہوا کہ ٹویٹراٹی نے ہم سے نہیں بلکہ اشرافیہ نے اس ریاست کے ٹیکس دہندگان سے ایک اور سنگین مذاق کیا ہے ۔

خبر کے مطابق تین ارب ڈالر کے مساوی (تین سو چورانوے ارب روپے) رقم اس شرط پر بانٹی گئی کہ کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران کسی کارکن کو بے روزگار نہیں کیا جائے گا۔ اور یہ پیسہ صنعتی مشینری وغیرہ کی دیکھ بھال اور خریداری پر خرچ کیا جائے گا۔ اس رقم میں سے بیالیس فیصد حصہ ٹیکسٹائل صنعت کے ناخداؤں کو ملا۔


یہ اقدام اتنا ”شفاف‘‘ تھا کہ تین برس تک کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اب کہیں جا کے شور یوں اٹھا کہ ایک جانب اگر پاکستان آئی ایم ایف کے سامنے تین ارب ڈالر کی مالی سہولت کے لیے ایڑیاں رگڑ رہا ہے تو اسی ملک میں اتنی ہی رقم کے برابر پیسہ کیسے بالا بالا چھاپ کے لگ بھگ مفت شرائط پر بٹ گیا اور آج اس ملک میں افراطِ زر جن حدوں کو چھو رہا ہے اس میں بہت حد تک اس پیسے کا بھی یوگدان ہے۔

چنانچہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نہ صرف ایف آئی اے، نیب، آڈیٹر جنرل اور ملٹری انٹیلی جنس کو اس معاملے کی کھوج لگانے میں تعاون کا حکم دیا بلکہ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد سے بھی پوچھ لیا کہ جن چھ سو بیس امیر پاکستانیوں میں تین ارب ڈالر کے مساوی ریوڑیاں بانٹ دی گئیں، کم ازکم ان کے ناموں کی فہرست ہی کمیٹی کو پیش کی جائے۔ نیز یہ بھی بتایا جائے کہ جس مقصد کے لیے یہ پیسے بانٹے گئے آیا وہ مقصد حاصل بھی ہوا یا نہیں؟


گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ بینکنگ قوانین و روایات کے تحت یہ نام صیغہِ راز میں رہنے چاہییں۔ البتہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بند کمرے میں اس بابت آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ سنا ہے کمیٹی یہ بات مان گئی۔ ہمارے دوست اور سرکردہ معاشی تجزیہ کار خرم حسین کا خیال ہے کہ کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران کئی امیر صنعتی ممالک نے تاجروں، صنعت کاروں اور چھوٹے کاروباریوں کو معاشی نقصان سے بھرپائی کے لیے مالی مدد دی۔ مگر غریب پاکستان میں جب یہ اربوں روپے بانٹے گئے تو اس وقت کسی بڑے سرمایہ دار نے کھلم کھلا اس رقم کا مطالبہ نہیں کیا۔کیونکہ کاروبار ویسے ہی بند تھا۔ چنانچہ نئی مشینری خریدنے یا پرانی کی تبدیلی و مرمت کی کوئی فوری ضرورت بھی نہیں تھی۔ اگرچہ کسی بھی تاجر اور صنعت کار نے اس پیسے کو لینے سے انکار نہیں کیا مگر انہیں حیرت ضرور ہوئی کہ بن مانگے یہ من و سلوی کیسے اتر آیا۔

بقول خرم حسین ایک سرمایہ کار نے یہ رقم وصول کر کے پرائیویٹ جیٹ خرید لیا۔ ان صاحب کا کیس عدالت میں ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ آخر جہاز بھی تو مشینری ہی ہے۔ مگر مجھے ان ریوڑیوں کے بٹنے پر کوئی حیرت نہیں۔ انیس سو اسی کے عشرے کے دورِ میں ضیا سے لے کے اب تک بارسوخ سیاستدانوں، صنعت کاروں، تاجروں اور تعمیراتی صنعت کے خداؤں نے اربوں روپے کے قرضے معاف کروائے یا انہیں رائٹ آف کر دیا گیا۔ حلوائی کی دوکان اور دادا جی کی فاتحہ یا چوری کا کپڑا اور بانسوں کے گز جیسے محاورے ایسے ہی مواقع پر استعمال ہوتے ہیں۔


شاید نظام ہی اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ جسے قرض کی ضرورت نہیں اسے بن مانگے ایک کال پر کروڑوں روپے مل جاتے ہیں اور جسے لاکھ پچاس ہزار روپے کی اشد ضرورت ہو اسے بینک کے دروازے پر بطور زرِ ضمانت اپنا ”بازو یا پھیپھڑا ‘‘ رکھوانا پڑتا ہے۔ اگر ایک ارب روپے کا مقروض دیوالیہ ہونے کا واویلا کرے تو بینک اپنی رقم ڈوب جانے کے خوف سے پاؤں پر کھڑا رکھنے کے لیے اسے مزید قرضہ یا چھوٹ دے دیتا ہے۔ جبکہ لاکھ پچاس ہزار کا مقروض اگر ادھار معہ سود واپس نہ کر سکے تو نہ صرف ریکوری پر مامور لحیم شحیم ڈشکرے اس کا دروازہ پیٹ ڈالتے ہیں بلکہ اس کا نام نادہندگان کے اشتہار میں آ جاتا ہے اور عدالتوں کی جانب سے املاک کی قرقی کا آرڈر بھی نکل سکتا ہے۔ جبکہ عزیز رشتے داروں میں جگ ہنسائی الگ۔

اس ملک میں ٹیکسوں کی ریکوری کا پچاس فیصد ہدف تنخواہ دار طبقے کو نچوڑ کے پورا کیا جاتا ہے۔ مگر جن ایک اعشاریہ ایک فیصد بڑے زمینداروں کے پاس ملک کا بائیس فیصد زرعی رقبہ ہے وہ کم و بیش ٹیکس فری اور ادھار و امداد کے پیسوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ سیاسی و پارلیمانی نمائندگی بھی اس طبقے کی سب سے زیادہ ہے۔ یہی طبقہ ہماری ”اسٹیبلشمنٹی جمہوریت‘‘ کو سب سے زیادہ الیکٹ ایبلز فراہم کرتا ہے۔


اس ملک کی نو فیصد قومی آمدنی کا مالک ایک فیصد تاجر و صنعت کار و لینڈ ڈویلپر طبقہ ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کتنا ٹیکس دیتا یا چھپاتا ہے؟ سب جانتے ہیں۔ مگر یہی کارپورٹ سیکٹر سالانہ لگ بھگ پانچ ارب ڈالر کے برابر مراعات و چھوٹ ریاست سے لے اڑتا ہے۔ لازمی دفاعی اخراجات اپنی جگہ لیکن غیر لازمی دفاعی اخراجات، دفاعی پنشنوں اور دفاعی اداروں سے منسلک غیر دفاعی کمرشل اداروں کا بوجھ بھی غیر ملکی و ملکی قرض اور براہِ راست و بلاواسطہ ٹیکس کے بل پر ڈھویا جاتا ہے۔

آئی ایم ایف کی بنیادی شرط یہ ہے کہ ٹیکس دینے کے قابل ہر طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور غیر ترقیاتی اخراجات و اشرافی مراعات میں کم ازکم پچاس فیصد تخفیف کر کے اس پیسے کا رخ عوام کی اکثریت کے لیے ایک باوقار زندگی ممکن بنانے پر صرف کیا جائے۔ نیز آمدن و اخراجات کے درمیان فرق کو کم سے کم رکھا جائے۔ گویا پاؤں چادر کے حساب سے پھیلائے جائیں۔ انیس سو بہتر سے اب تک ٹیکس اصلاحات کے لیے پندرہ کمیشن اور بااختیار کمیٹیاں بن چکی ہیں۔ نتیجہ صفر نکلا۔کیونکہ ملزم بھی وہی، منصف بھی وہی اور مصنف بھی وہی۔


تعلیم، اصلاحات اور عام آدمی کو بنیادی سہولتیں دینے کے نام پر ہم کشکول لہرا کے جو قرض لیتے ہیں۔ سب سے پہلے اس سے نیا ایگزیکٹو طیارہ، ہیلی کاپٹر، گاڑیاں اور دفتری فرنیچر خریدتے ہیں۔ جن کی تنخواہ پہلے ہی سب سے زیادہ ہے انہی کی تنخواہوں میں لگاتار اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور پھر جو بچ جاتا ہے اسے دو چار نمائشی منصوبوں پر خرچ کر کے قرض دینے والوں کو بتاتے ہیں کہ یہ دیکھیں یہ عمارت، یہ سڑک۔ اب اور پیسہ دیں۔

اس وقت پاکستان پر ایک سو چھبیس ارب ڈالر کا غیر ملکی قرض چڑھا ہوا ہے۔ مگر ہماری ”پسماندگی‘‘ کا سبب وہ تمام بین الاقوامی ادارے، پڑوسی اور سپرپاورز ہیں، جنہیں پاکستان کی ”ترقی‘‘ ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ورنہ تو اب تک ہم کچھ نہیں کچھ نہیں جنوبی کوریا، تائیوان، سنگاپور یا اسپین کے کان کتر رہے ہوتے۔ اب تو ہمارے پاس نئے حیلوں بہانوں کا بھی کال پڑتا جا رہا ہے کہ جن سے عام آدمی اور بیرونی دنیا کو اور کچھ دیر کے لیے بے وقوف بنایا جا سکے۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔