دیکھا جو میں نے پھول کو کچھ پھول بیچتے

بارہ جون کو بچوں کی مشقت کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستانی آئین میں گرچہ چودہ سال سے کم عمر بچوں سے کام لینے پرپابندی عائد ہے۔ اس کے باوجود زمینی حقائق کیا ہیں، پڑھیے اس بلاگ میں۔

دیکھا جو میں نے پھول کو کچھ پھول بیچتے
دیکھا جو میں نے پھول کو کچھ پھول بیچتے
user

Dw

پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس، گرد سے اٹے ننگے پیر، کثیف بالوں سے رستا ہوا اور ماتھے سے ٹپکتا ہوا پسینہ، ننھے ہاتھوں میں سُرخ رنگ کے ادھ کھلی کلیوں کا گلدستہ لیے ایک بچہ سگنل پر رُکی گاڑی کی کھڑکی پر دستک دیتا رہا یہاں تک کہ سگنل کُھلا اور گاڑی اُسے نظر انداز کرتی ہوئی برق رفتاری سے آگے بڑھ گئی۔ بچہ پیچھے سے آنے والی دوسری گاڑی کے پیچھے بھاگتا ہوا سگنل کے رکنے کا انتظار کر رہا تھا کہ میں نے اُسے آواز دے کر اپنی طرف بلایا۔ بچے نے اپنی اُدھڑی ہوئی آستین سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور پوچھنے لگا،''باجی آپ کتنے پھول لیں گی۔ میرے پاس بہت سے ہیں اور شام تک اگر یہ نہ بکے تو مجھے بہت مار پڑے گی۔‘‘

کراچی کی ایک مرکزی شاہراہ پر یہ منظر کوئی انوکھا نہیں۔ پورے پاکستان میں جس جگہ بھی چلے جائیں آپ کو یہی مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ بیشمار ایسے بچے ننھے ننھے ہاتوں میں پھولوں کے علاوہ کھلونے، الاسٹک اور ازاربند کے پیکٹس، غبارے اور دیگر چھوٹی موٹی چیزیں اٹھائے اور فروخت کرنے کی کوشش میں اکثر اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر گاڑیوں کے پیچھے دوڑ رہے ہوتے ہیں جیسے جنگل میں کیڑے مکوڑے اپنی خوراک کی تلاش میں ہوں۔ فرق یہ ہے کہ جنگل پر راج کسی 'جانور‘ کا ہوتا ہے مگر پاکستان جیسے متعدد دیگر معاشروں میں حاکم 'انسان‘ کہلاتا ہے۔


سڑکوں پر ننگے پیر دوڑتے ہوئے بچے ہوں، مزدوری یا بیگار پر مجبور بچے ہوں یا چار پیسے کمانے کے لیے جسم فروشی تک پر مجبور بچے، ان بچوں کا قصور وار کون ہے؟

ہر سال کی طرح اس بار بھی یعنی کل بارہ جون کو چائیلڈ لیبر کے خلاف یا بچوں سے لی جانے والی مزدوری کے خلاف عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ سیمیناروں، کانفرنسوں اور مباحثوں میں ایک بار بھر شدت دیکھنے میں آرہی ہے اور شاید دن کے اختتام تک عالمی ادارے اور بہبود اطفال کے لیے سرگرم ایجنسیوں کی طرف سے ایک بھاری بھرکم بیان آ جائے اور مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ بھی تیار کر لیا جائے جس کا مقصد دنیا بھر سے بچوں کی مزدوری کے مسئلے کا سد باب ہو۔ لیکن زمینی حقیقت یہی رہے گی کہ آپ جب پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک میں گھروں سے باہر نکلیں تو آپ کو ارد گرد بیشمار ایسے ہی بچے نظر آئیں گے جو سڑکوں پر پھرتے، پیسہ کمانے کی کوشش کرتے اور اپنے اور اپنے گھروالوں کے لیے کچھ کرنے کی جدو جہد میں اپنا بچپن ہی نہیں، اپنی نوجوانی اور جوانی بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔


چائلڈ لیبر کا خاتمہ سماجی انصاف کی آرزو کا ایک سنگ بنیاد ہونا چاہیے۔ یہ ایک ناانصافی ہے جو زیادہ تر معاملات میں گھرانوں اور خاندانوں کی سطح پر محسوس کی جاتی ہے۔ اسے دنیا کے کئی حصوں میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات سے جوڑا جا سکتا ہے۔ یہ سماجی ہم آہنگی اور انسانی ترقی کے لیے خطرہ ہے۔

سن 2000 سے، تقریباً دو دہائیوں سے، دنیا بھر میں چائیلڈ لیبر کو کم کرنے کی کوششوں میں مسلسل تیزی آئی ہے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں، تنازعات، بحرانوں اور COVID-19 کی وبا نے مزید خاندانوں کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے اور مزید لاکھوں بچوں کو چائیلڈ لیبر پر مجبور کر دیا ہے۔ آج بھی 160 ملین سے زائد بچے چائیلڈ لیبر کرنے پر مجبور ہیں۔ یعنی دنیا بھر میں تقریباً ہر دس میں سے ایک بچہ مشقت پر مجبور ہے۔


لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی دنیا یا ترقی یافتہ ممالک میں ہمیں بچوں کی یہ حالت کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ جرمنی میں پیدا اور پروان چڑھنے والے بچے کیوں گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے، پھول اور دیگر اشیاء بیچنے کی کوشش کرتے، اپنے ہم وطنوں کی جھڑکیاں سنتے دکھائی نہیں دیتے۔ جرمنی میں بنیادی اسکول کی سطح سے ہی بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ کرسمس کے تہوار اور دیگر مواقع کی مناسبت سے اپنے اسکولوں میں اپنے ہاتھ سے بنی چیزیں اور ایسی اشیاء جو اب ان کے مصرف کی نہیں رہیں اوران کی حالت بالکل اچھی ہو، انکا مینا بازار لگا کر پیسے اکٹھا کریں اور یہ رقوم زیادہ تر افریقی ممالک کے اسکولوں یا پھر جنگ زدہ معاشروں کے بچوں کی بنیادی ضروریات اور تعلیمی سرگرمیوں کے لیے بھجیں۔ جرمنی اور دیگر مغربی معاشروں میں بچوں سے مشقت کروانا اور محنت مزدوری کرنے والے کسی بھی بچے کو جھڑکنا اور اس کے ساتھ برا سلوک کرنا باقاعدہ جرم ہے اس کی سزا بھی سخت ہے۔

بچہ تو چاہے امیر کا ہو یا غریب کا، سرمایہ دار کا یا مزدور کا، سیاہ فام ہو یا سفید فام یا وہ کسی بھی نسل، رنگ اور ثقافت سے تعلق رکھتا ہو، جب دنیا میں آتا ہے تو اپنی قسمت یا مستقبل لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ بچہ تو کسی بھی سرزمین پر آنکھ کھولے، وہ نرم مٹی جیسا ہوتا ہے جسے ایک کمہار جس قالب میں ڈھالنا چاہے اُسے ویسا ہی بنا سکتا ہے۔


حال ہی میں 'انٹرنیشنل مدرز ڈے‘ یا عالمی یوم مادر آیا۔ اس موقع پر میری بیٹی نے مجھے بہت سارے پھولوں کا گلدستہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پیش کیا۔ اس گلدستے کو اپنی بیٹی کے خوبصورت ہاتھوں سے لیتے ہوئے مجھے اُس بچے کے ہاتھوں کا خیال آیا جو میری طرف پھولوں کو بڑھاتے ہوئے پُر امید نگاہوں سے مُجھے دیکھ رہا تھا۔ جیسے کہہ رہا ہو،''اسے تحفہ سمجھ کر لیکن پیسوں کے عوض قبول کر لیں۔ یہ پھول نہ بکے تومجھ سے کام کروانے والا مجھے بہت پیٹے گا اور میری راہ تکنے والی ماں مجھے بغیر پیسوں کے گھر آتا دیکھ کر مرجھا جائے گی۔ اُسے ہم پانچ بھائی بہنوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کی فکر ہر روز کھائے جاتی ہے۔‘‘

سچ پوچھیے تو خوشبو بھی چبھنے لگی مجھے

دیکھا جو میں نے پھول کو کچھ پھول بیچتے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔