'اخلاق‘ دنیا کا مشترکہ باب

اخلاق کسی بھی قوم کی زندگی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہو۔ اخلاق دنیا کے تمام مذاہب کا مشترکہ باب ہے۔

'اخلاق‘ دنیا کا مشترکہ باب
'اخلاق‘ دنیا کا مشترکہ باب
user

Dw

اخلاقیات ہی انسان کو جانوروں سے الگ کرتی ہیں۔ اگر اخلاق نہیں تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اخلاق کے بغیر انسانوں کی جماعت انسان نہیں بلکہ حیوانوں کا ریوڑ کہلائی گی۔ انسان کی عقلی قوت جب تک اس کے اخلاقی رویہ کے ما تحت کام کرتی ہے، تمام معاملات ٹھیک چلتے ہیں۔

ابن خلدون اپنی کتاب مقدمہ ابن خلدون میں لکھتے ہیں، ''دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے۔‘‘ کسی بھی معاشرے میں مادر پدر آزادی کو قابو میں رکھنے کے لیے اخلاقیات کی صورت کچھ پابندیاں لگانی بہت ضروری ہوتی ہیں۔ اخلاقی اقدار کی موجودگی ہی کسی معاشرے اور اس میں رہنے والے افراد کو مہذب ہونے کی ضامن ہوتی ہیں۔ یہ اخلاقی اقدار سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی آتی ہیں اور نسل در نسل بدلتی رہتی ہیں۔ جبکہ معاشرہ اپنا ڈھانچہ برقرار رکھتا ہے۔


کسی معاشرے میں موجود اخلاقی اقدار کی مضبوطی اس معاشرے کے بارے میں مثبت یا منفی تاثر دیتی ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی بہت ضروری ہے۔ پاکستان کا تعلیمی معیار اب بہتری کی جانب گامزن ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو معاشرتی اور اخلاقی اقدار رو بہ زوال ہیں۔ اب چونکہ تعلیمی نظام اور خواندگی کی شرح پہلے سے بہتر ہے اس لیے ہم اس کی ذمہ داری اس پر نہیں ڈال سکتے ۔ ہمیں تلاش کرنا ہو گا کہ تعلیم کی کمی کے علاوہ اور کونسی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے اخلاقی اقدار مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ کسی بھی بچے کی اخلاقی تربیت اس کے گھر سے شروع ہوتی ہے۔ کسی بھی بچے کے ماں باپ اس کے اخلاق کی تربیت گاہ ہوتے ہیں۔ مگر افسوس آج کل کے والدین کی ذاتی مصروفیات اتنی ہوتی ہیں کہ بچے پر مناسب توجہ نہیں دے پاتے ہیں۔ کسی بھی اچھے سے اچھے سکول میں داخل کروا کر سمجھتے ہیں کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہورہی ہے۔


اخلاقیات سکھانے کی تمام تر ذمہ داری اساتذہ کی سمجھی جاتی ہے۔ جبکہ بچے اسی چیز کی تقلید زیادہ کرتے ہیں جو وہ گھر میں ہوتے دیکھتے ہیں۔ یہی بچے جب تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں تو چونکہ ان کی اخلاقی تربیت گھر سے ہی درست نہیں ہوئی ہوتی اس لیے وہ وہاں جا کر بھی پوری طرح سے پرفارم نہیں کر پاتے۔ ان کے اذہان پر گھریلو تربیت کا اثر ہوتا ہے ایسی صورت حال میں اساتذہ ان کو زیادہ اخلاقیات سکھا نہیں سکتے ۔

گزشتہ چند دہائیوں سے سائنس اور ٹیکنالوجی نے دنیا بھر میں ایک انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے ہم وہ بد نصیب قوم ہیں جس کے خاندانی نظام ، مذہبی اور معاشرتی اقدار کو اس ٹیکنالوجی کے غلط استعمال نے کھو کھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم کب منفیت کا شکار ہوئے کب ففتھ جنریشن وار میں پڑے ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو سکا۔ اس کا اندازہ ہمارے والدین کو بھی نہ ہوسکا کہ وہ ہماری اخلاقی تربیت کریں۔ ہمارے معاشرے کے لوگ دوسروں کی تضحیک کرنے کے چکر میں خود کو ہر معیار سے گرا لیتے ہیں۔


بات وہیں آجاتی ہے کہ اصل ذمہ دار کون ہے۔ سب سے پہلے تو والدین کیونکہ کسی بڑے سے عزت سے بات کرنی ہے یا کسی بڑے کو کس نام سے پکارنا ہے۔ کسی کے ساتھ کس قسم کارویہ رکھنا ہے۔ اور اگر کوئی غلط بات کرے تو کس طرح سے اخلاق کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے اسے یہ سمجھانا ہے کہ وہ غلطی پر ہے۔

اس کے بعد اساتذہ، کیونکہ گھر کے باہر کی دنیا سے متعارف استاد ہی کرواتا ہے۔ اور استاد ہی سکھاتا ہے کہ عملی زندگی میں کس طرح پیش آنا ہے۔ جاپان میں بچے کے سکول میں ابتدائی پانچ سالوں تک اس کی تربیت کی جاتی ہے، جس میں کھانے کے طریقے، ملنے جلنے کا طریقہ، بات کرنے کا طریقہ، عمومی معاشرتی اقدار اور اخلاقیات وغیرہ۔ جبکہ ہمارے فرسودہ نظام تعلیم میں یہ سب چیزیں اس وقت سکھائی جاتی ہیں، جب بچہ اپنی تمام عادتیں پختہ کر چکا ہوتا ہے۔ اب اس موضوع پر ایک مضمون ہر اس بچے کو پڑھایا جاتا ہے جو اپنی ڈگری پوری کرنے والا ہوتا ہے۔ تب تک بہت دیر ہو جاتی ہے۔


اس کے بعد اس کی ذمہ داری قوم کے لیڈرز اور ہیروز پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہمارے لیڈران بڑے بڑے جلسوں میں اپنے حریف کے بارے اخلاق سے گری ہوئی باتیں ببانگ دہل کرتے ہیں۔ ان کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ ہر لیڈر قوم کا ہیرو ہوتا ہے۔ اور ہر قوم اپنے ہیروز کی پیروی کرتی ہے۔ اگر یہ لوگ ہی اخلا قیات کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں گے۔ تو ایسا تو ہو گا جیسا ہو رہا ہے۔ بے شک سوشل میڈیا پر موجود لیڈرز کے فالورز کے پیجز دیکھ لیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں گرتی ہوئی اخلاقی اقدار کو سنبھالا دیا جائے، جس کے لیے سب سے پہلے والدین کو ہی قدم اٹھانا پڑے گا۔ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر بچوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ دیں یا ورنہ اخلاق اور اقدار کی کمی بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی سب سے اہم وجہ بن جائے گی۔ ہر کوئی اپنے تئیں سوچے کہ اگر یہی بد اخلاق رویہ ان کے کسی پیارے کے ساتھ روا رکھا جائے تو ان کے کیا جذبات و احساسات ہوں گے۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔