جنوبی بھارت میں بچے کھچے مدرسری معاشرے کی باقیات
سابقہ صدیوں میں کیرالا میں مختلف ہندومت، اسلام اور مسیحت مذاہب میں مدرسری معاشرت پائی جاتی تھی۔ اب کیرالا میں صرف نائر ہندوؤں کے خاندان ہی مدرسری نظام پر عمل پیرا ہیں۔
تاریخی اعتبار سے قریب دو صدیاں قبل کیرالا کے تمام بڑے مذاہب میں ایسا معاشرتی نظام مستعمل تھا، جس میں نسب نامہ اور وراثت کی منتقلی ماں سے آگے بیٹیوں میں منتقل ہوتی تھی۔ یہ نظام پدرسری (Patriarchal) کے اُلٹ مدرسری (Matriarchal) کہلاتا ہے۔ پھر انیسویں صدی میں اس معاشرتی نظام میں بتدریج زوال پیدا ہوتا گیا اور مردوں کے غلبے کا حاوی معاشرہ قائم ہوتا چلا گیا۔
کیرالا میں گوپی ناتھن خاندان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان میں مدرسری نظام ابھی تک جاری ہے۔ اس خاندان کی ایک خاتون اپرنا گوپی ناتھن کو اس مدرسری نظام پر فخر ہے اور وہ کہتی ہیں کہ وہ اب بھی اُسی نظام کا حصہ ہے جس میں وراثت کی منتقلی ایک عورت یا ماں سے آگے بڑھتی ہے۔ اب مدرسری نظام بیشتر کیرالا ریاست میں ناپید ہو چکا ہے، صرف چند خاندان اس پر عمل پیرا ہیں۔
مدرسری نظام کی شروعات
زیادہ تر پدرسری نظام کے حامل بھارت میں مدرسری کے حوالے سے کئی نظریے اور کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ نائر خاندان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے مرد جنگوں کی تربیت حاصل کرنے کے لیے وقف ہوتے تھے۔ ایسی روایت قدیمی یونان کی شہری ریاست سپارٹا کے بارے میں بھی بیان کی جاتی ہے۔ مرد جب جنگوں کے لیے روانہ ہو جاتے تھے تو ان کے پیچھے خواتین سب نظم و نسق سنبھالتی تھیں۔ اس میں بچوں کی نگہداشت، کاروبار اور جائیداد کی دیکھ بھال بھی شامل تھی۔
پھر وسطی دور میں اونچی ذات کے برہمنوں کو عروج حاصل ہوا تو ذات پات کے نظام میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی۔ سولہویں صدی میں شمالی ہندوستان سے جنوب کی جانب نمبودیری برہمن جب مہاجرت کر کے کیرالا پہنچے تو وہ مندروں کی تعمیر کے دوران ارد گرد کی زمینوں کے مالک بھی بن گئے۔ اس طرح قدیمی مدرسری نظام کی بنیادیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔
نمبودیری برہمن
کیرالا کے شہر تریوانتھپورم کے مشہور شری نارائن کالج میں عمرانیات کے پروفیسر ڈاکٹر لیکھا این بی کا کہنا ہے کہ نمبودیری برہمنوں کی آمد کے بعد صرف ان کے بڑے بیٹے کو شادی کی اجازت ہوتی تھی جب کہ دوسرے مرد نائر خاندان کی عورتوں کے ساتھ تعلقات یا سمبندھم استوار کرتے تھے۔
ان کے مطابق گھروں میں عورتیں کام کاج کرتی اور مرد اپنی دوسری بیویوں کی جانب رجوع کرتے تھے۔ یہ مشترکہ خاندان یا جوائنٹ فیملی کا دور تھا اور نگران سب سے بزرگ مرد ہوا کرتا تھا۔ ان خواتین کے لیے بچے پیدا کرنے کے خصوصی کمرے (پیتمری) بنائے جاتے تھے۔ کیرالا میں اس وقت بیوہ کی زندگی نہایت مشکل ہوتی تھی، شوہر کے مرنے کے بعد انہیں الگ تھلگ کر دیا جاتا تھا۔
نائر قبیلے کی عورتیں
نائر قبیلے کی عورتوں میں بھی ذات پات پائی جاتی تھی۔ یہ عورتیں مردوں کے زیرنگین یا ان سے مال لینے کی محتاج نہیں ہوا کرتی تھیں۔ ان کا اپنا درجہ خاصا بلند ہوتا تھا۔ ان میں روایتی شادی کا نظام نہیں تھا بلکہ اپنے مرتبے کے مطابق زیادہ مردوں کے ساتھ جسمانی تعلقات (Polyandrous) استوار کر سکتی تھیں اور ان کو منقطع کرنے کا اختیار بھی وہ رکھتی تھیں۔
خواتین سے متعلق ہمارے رویے کب بدلیں گے؟
وسطی کیرالا کی ارمیلا رنجیت بھی مدرسری نظام کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ سابقہ دور میں اونچی ذات کا ہندو نیچی ذات کی عورت سے شادی کر سکتا تھا اور کبھی کبھار وہ اس کے پاس جایا بھی کرتا تھا، یہ مرد اپنی عورتوں کو مال و دولت بھیجتے رہتے تھے۔ ارمیلا رنجیت کے مطابق اس دور میں سب سے بڑی دولت چاول، کیلا اور ایسی دوسری اشیا کو قرار دیا جاتا تھے۔
عمرانیات کے پروفیسر ڈاکٹر لیکھا کا کہنا ہے کہ اس دور میں تراوندور کے بادشاہ بھی انہی رسوم پر عمل پیرا تھے اور ان کی بہن کا بیٹا تخت کا وارث ہوا کرتا تھا۔ شاہی خاندان کے مردوں کو نائر عورتوں سے شادی کی اجازت ہوا کرتی تھی۔
نائر عورتیں جب کسی اپنے مردوں کے جوتے اور چھتریاں گھروں سے باہر رکھ دیا کرتی تھیں تو یہ اس بات کا اظہار ہوتا تھا کہ وہ سابقہ مرد کو مزید خوش آمدید نہیں کہیں گی۔
مدرسری نظام کا زوال
انیسویں صدی میں برطانوی نوآبادیاتی دور میں کیرالا کے مدرسری نظام کی دیواریں ٹوٹنا شروع ہو گئیں اور چند خاندان قدیمی نظام کے ساتھ وابستہ رہ گئے۔ نوآبادیاتی دور میں اس علاقے میں مغربی مسیحی پدرسری نظام کو متعارف کرایا گیا۔
ایک ستائیس سالہ نائر خاتون میدھا کا کہنا ہے کہ اس کے خاندان میں جائیداد زیادہ تر بزرگ خواتین کو منتقل ہوتی ہے لیکن اب اس میں کسی حد تک تبدیلی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔ میدھا کے مطابق اب جائیداد کی مساوی تقسیم مردوں اور عورتوں میں کی جاتی ہے۔ میدھا نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ ایک خاندان میں شوہر اور بیوی مالی معاملات اور روزمرہ کے معاملات میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔
جسم وزیراں کا لیکن مرضی ’غیرت مندوں‘ کی
اپرنا گوپی ناتھن کا کہنا ہے اب دونوں جنسوں کو بظاہر مساوی درجہ دیا جاتا ہے لیکن بچے اب بھی ماں کے خاندان کی جانب مائل رہتے ہیں۔ لڑکیوں کو بچپن سے کھری اور کھلی بات کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ ان کے مطابق بیٹیوں کو بیٹوں کی جگہ فضیلت اب بھی دی جاتی ہے۔ اپرنا گوپی ناتھن کا افسوس سے کہنا ہے کہ بسا اوقات خاندان کا بزرگ مرد یا سربراہ جانبداری کا رویہ اپناتا ہے اور ان کے مدرسری نظام میں زوال کی ایک یہ بھی وجہ ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔