انٹرنيٹ پر کيا کرنا ہے اور کيا نہيں کرنا؟
انٹرنيٹ کی اپنی ہی ايک پيچيدہ دنيا ہے۔ صحيح استعمال سے صارفين کے ليے معلومات کا ايک سمندر کھل جاتا ہے ليکن کبھی کبھی معمولی سی غلطياں الجھن کا سبب بن جاتی ہيں۔
ذرا تصور کيجيے کہ آپ چھتيس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنے والے ايک جہاز ميں پرسکون انداز ميں بيٹھے ہيں۔ سامنے اسکرين پر ايک فلم چل رہی ہے اور آپ غنودگی کے عالم ميں ہيں۔ ايسے ميں اچانک آپ کو ٹوائلٹ جانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ليکن آپ گردن اٹھا کر ديکھتے ہيں، تو ٹوائلٹ ميں پہلے ہی کوئی موجود ہے۔ مجبوراً انتظار کے دوران آپ اپنا فون اٹھا کر اس سے کھيلنا شروع کر ديتے ہيں۔ اتنے ميں ٹوائلٹ سے ايک شخص باہر نکلتا ہے اور آپ جلدی سے اس جانب بڑھتے ہيں۔ جلدی ميں آپ نے اپنا فون بس ايسے ہی اگلی سيٹ کے نيچے موجود جالی کے خانے ميں ڈال ديا۔ بس يہيں غلطی ہو گئی۔ اس بات کا خيال رکھيں کہ آپ اپنے فون کی اسکرين لاک ضرور کريں۔ ورنہ کوئی بھی آپ کے فون کے اندر موجود ڈيٹا تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ اپنے فون ميں دو مراحل پر محيط سکيورٹی سسٹم رکھيں اور يہ بھی اچھا ہو گا کہ اگر آپ انگليوں کے نشان يا چہرے کے ذريعے شناخت کا سسٹم اپنائيں۔
يہ ہر جگہ انٹرنيٹ کا تصور سننے ميں تو بہت ہی دلچسپ معلوم ہوتا ہے ليکن درحقيقت يہ ايک چال ہے۔ عوامی مقامات پر انٹرنيٹ کے استعمال ميں احتياط لازمی ہے۔ چاہے آپ اپنے فون کے ڈيٹا پلان سے انٹرنيٹ تک رسائی حاصل کريں يا پھر وائی فائی سے، يہ سب راستے آپ کے فون اور اس ميں موجود ڈيٹا کے ليے ايک دروازے کے حيثيت رکھتے ہيں۔ حل يہ ہے کہ عوامی مقامات پر انٹرنيٹ استعمال کرتے وقت ہميشہ وی پی اين استعمال کريں۔ ورچوئل پرائيویٹ نيٹ ورک آپ کے ڈيٹا اور کنکشن کو محفوظ بنا ديتا ہے۔
چيٹ کرتے وقت نامعلوم افراد پر بھروسہ کرنا ايک بہت بڑی غلطی ہے۔ کئی ماہرين کی رائے ميں چيٹ رومز کا شمار انٹرنيٹ پر خطرناک ترين جگہوں ميں ہوتا ہے۔ کئی ايسی مثاليں ہيں جن ميں خواتين کو ان کی شناخت ظاہر کرنے پر مجبور کيا گيا يا ان کی ذاتی نوعيت کی تصاوير و ڈيٹا تک رسائی حاصل کر کے انہيں بليک ميل کيا گيا۔ يا پھر پريشان افراد کو خود کشی پر اکسايا گيا۔ ايسے پليٹ فارمز اور چيٹ رومز سے گزير ہی بہتر ہے۔
اکثر اوقات لوگ يہ غلطی کرتے ہيں کہ اپنے پاس ورڈ بھولنے کے ڈر سے انہيں کہيں لکھ ليتے ہيں۔ يہ ٹھيک ہے اگر آپ اسے بحفاظت رکھ سکيں۔ ليکن آپ اپنا پاس ورڈ کسی دوست احباب کو بتا ديتے ہيں اور پھر بھول جانے کی صورت ميں اسے اس پاسورڈ کو ميسج کرنے کو کہتے ہيں، تو يہ ايک بہت بڑی غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔ پاس ورڈز کو کبھی بھی ٹيکسٹ ميسجز کی صورت ميں محفوظ نہ کريں۔
ايک اور بڑی غلطی اپنے بينک کارڈ يا کريڈٹ کارڈ کی تصاوير بنا کر اپنے فون ميں رکھنا ہے۔ اکثر لوگ کارڈ کے دونوں اطراف کی تصاوير فون ميں محفوظ کر ليتے ہيں، جو غلط ہے۔ يا پھر ايسی تصاوير پيغامات کے طور پر بھيجنا يا وصول کرنا بھی غلط ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔