کیا او آئی سی اجلاس کا مقصد ایران مخالف محاذ بنانا ہے؟
او آئی سی کے منتظمین کے مطابق اجلاس کا مقصد اسلامی ممالک کے مسائل پر بحث کرنا ہے۔ تاہم کارروائی نے واضح کردیا ہے کہ یہ مسائل حل کرنے کے بجائے ایران کے خلاف محاذ بنانے کے لیے استعمال ہوئی۔
مبصرین اور سیاست دانوں کا خیال ہے کہ او آئی سی اجلاس کا ایک اہم مقصد ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا تھا۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکڑ سرفراز خان کے خیال میں اس اجلاس کا مقصد ایران پر اس امریکی، اسرائیلی اور سعودی دباؤکو بڑھانا ہے، جو یہ ممالک پہلے سے تہران پر ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’خطے میں امریکی بیٹرے اور فوجی موجود ہیں۔ سعودی عرب اور ایران میں سخت کشیدگی ہے۔ ایسے موقع پر کوئی منطق نہیں تھی کہ اس اجلاس میں اسلامی ممالک کے مسائل پر بات چیت کی جائے اور وہ ہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ‘‘
ان کے بقول،’’او آئی سی کے اجلاس کی اب تک کی کارروائی سے یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب ایران کے خلاف ٹھوس اقدامات چاہتا ہے اور اس سلسلے میں وہ مسلم ممالک کی حمایت چاہتا ہے۔ پاکستان سے وہ چاہتا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ تصادم کی صورت میں امریکا کو فوجی اڈے یا لوجسٹک سپورٹ دیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ملک ایک نئے بحران سے دوچار ہو جائے گا۔ لہذا ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے اور کسی بھی صورت سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ نہیں جانا چاہیے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب اس وقت سخت مشکل میں ہے اور ایسے موقع پر وہ اسلام آباد سے مدد چاہے گا،’’ریاض کو شام، عراق، لبنان اور یمن میں ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اس کے تیل کی دولت سے مالا مال علاقوں میں شیعہ مسلک کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ بحرین میں بھی شیعہ اکثریت میں ہیں۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں ان کی اچھی بڑی تعداد موجود ہے۔ تو یہ سارے عوامل سعودی عرب کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔ وہ اسرائیل اور امریکا کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف کچھ کرنا چاہتا ہے اور ایسی صورت میں وہ پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ممالک کی حمایت چاہتا ہے اور اس اجلاس کا اہم مقصد یہ حمایت حاصل کرنا تھا، جو عراق کے اختلاف کی وجہ سے حاصل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔‘‘
سیاست دان مبصرین کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ او آئی سی کے اجلاس کا مقصد ایران کے خلاف محاذ تیار کرنا ہے لیکن وہ اسلام آباد کو خبر دار بھی کر رہے ہیں کہ وہ ایران سعودی تنازعے میں فریق نہ بنے کیونکہ اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد اکرم بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کےخیال میں اگر پاکستان فریق بنتا ہے تو یہ ملک کے لیے تباہی ہوگی،’’اس اجلاس کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف داری کرے کیونکہ یہ ممالک ہماری مالی امداد کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاض نے او آئی سی کے اجلاس کے دوران ایک طرح سے دوسرے مسلم ممالک پر بھی دباؤ ڈالا ہے کہ وہ قدامت پرست بادشاہت کا ساتھ دیں لیکن ہمارے لیے جانبداری تباہ کن ہو سکتی ہے کیونکہ ملک میں شیعہ افراد کی ایک بڑی تعداد ہے اور اس سے ہمارے سماجی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘
پاکستان میں ناقدین کا یہ دعوی ہے کہ ماضی میں اسٹریٹیجک فیصلوں پر پارلیمنٹ کو کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ محمد اکرم کا کہنا ہے کہ حکومت اگر سعودی ایران مسئلے پر کوئی فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے،’’ اور وزیرِ اعظم عمران خان واپس آ کر قوم کو بتائیں کہ انہوں نے سعودی حکام سے کوئی ایسا وعدہ تو نہیں کیا ہے جو ملک اور قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہو۔‘‘
ماضی میں پاکستان نے یمن کے مسئلے پر فریق بننے سے انکار کر دیا تھا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ نواز شریف کے زوال کا ایک سبب یمن کے مسئلے میں فریق نہ بننے کا فیصلہ بھی تھا۔ اس وقت ملک کی پارلمنٹ نے ایک مشترکہ قرارداد میں غیر جانبداری کا مطالبہ کیا تھا۔ نون لیگ کا کہنا ہے کہ اب بھی ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ پارٹی کے ایک اہم رہنما سینیٹر مشاہد اللہ نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پی ٹی آئی والے نا تجربہ کار ہیں۔ اس لیے انہیں پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش پر انحصار کرنا چاہیے، جس نے ماضی میں یمن کے مسئلے پر غیر جانبدار رہنا کا کہا تھا اور اب وہ ایران اور سعودی عرب کے مسئلے پر بھی یہ ہی کہے گی۔ اگر یہ پارلیمنٹ میں اس مسئلے کو نہیں لائے تو خدشہ ہے کہ ان کی ڈوریاں کھینچنے والے کہیں کوئی ایسا فیصلہ نہ کر دیں، جو ملک اور قوم کے لیے تباہ کن ہو۔‘‘
پی ٹی آئی بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں موجودہ کشیدگی کے تناظر میں پاکستان پر دباؤ ہے۔ پارٹی کے رہنما ظفر علی شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے ایسا کوئی فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ او آئی سی کے اجلاس میں ایران سعودی کشیدگی سب سے اہم موضوع رہا اور پاکستان پر ریاض کی طرف سے بلا واسطہ یا بلواسطہ دباؤ ہے کہ وہ ایران سعودی تنازعے میں ریاض کا ساتھ دے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج اور پی ٹی آئی حکومت کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ ایران یا سعودی عرب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کرے،’’میرے خیال میں ہمیں مکمل طور پر غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ورنہ ملک تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے۔‘‘
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں پاکستان کو سعودی عرب کی ناراضگی کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے اور ہر حالت میں غیر جانبدار رہنا چاہیے،’’ہم نے کبھی سعودی عرب سے پوچھا کہ وہ بھارت میں اتنی سرمایہ کاری کیوں کر رہا ہے۔ ریاض اپنے قومی مفادات دیکھتا ہے اور ہمیں اپنے قومی مفادات دیکھنے چاہیے اور ایران سعودی تنازعے میں بالکل فریق نہیں بننا چاہیے۔‘‘
پاکستان میں یہ عام تاثر ہے کہ سعودی عرب اگر اسلام آباد سے ناراض ہوگیا تو وہ ہماری مالی امداد نہیں کرے گا لیکن جنرل امجد اس تاثر سے متفق نہیں، ’’ہم نے یمن کے مسئلے پر سعودی عرب کا ساتھ نہیں دیا لیکن اس کے باوجود بھی سعودی عرب ہماری امداد کر رہا ہے۔ مسئلہ صرف ایران کا نہیں ہے۔ ہم سعودی عرب میں سکیورٹی سمیت کئی دوسرے معاملات میں تعاون کرتے رہے ہیں اور اگر وہ امداد کرتے ہیں تو وہ ان جیسے امور کے لیے ہے۔ لیکن اگر ریاض ہمیں جانبداری کے لیے مالی مدد بھی دیتا ہے تو ہمیں ایسی مالی مدد کو مسترد کر دینا چاہیے اور تہران ریاض تنازعے میں مکمل طور پر غیر جانبدار رہنا چاہیے۔‘‘
اس صورتِ حال نے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں، جو ایک طرف ایران کا پڑوسی ہے اور دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی مدد کا محتا ج ہے۔ واضح رہے کہ ریاض نے حال ہی میں پاکستان کو موخر ادائیگی پر تیل فراہم کرنے کا کہا ہے جب کہ سعودی حکومت نے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بہتر کرنے کے لیے بھی تین بلین ڈالرز دیے ہیں۔
ریاض کا قریبی اتحادی ایران دشمن متحدہ عرب امارات بھی پاکستان کی مالی مدد کرنے کے لیے تیار ہے لیکن مبصرین کے خیال میں اسلام آباد کو اس کے لیے سعودی ایران تنازعے میں جانبداری دکھانی ہو گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔