بھارت میں اعضاء عطیہ کرنے والوں کی تعداد اتنی کم کیوں ہے؟
بھارت میں اعضاء عطیہ کرنے والوں کی دنیا کی سب سے کم ترین شرح ہے اور باقی دنیا سے بہت پیچھے ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جنوبی ایشیائی قوم میں عطیہ دہندگان کی شرح بڑھانے کے لیے اہم تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
بھارت میں عطیہ شدہ اعضاء کی مانگ اس کی فراہمی سے بہت زیادہ ہے اور مرنے والوں میں اپنے اعضاء عطیہ کرنے والوں کی شرح فی ملین آبادی پر ایک عطیہ دہندہ سے بھی کم ہے۔ اگر امریکہ اور اسپین جیسے ممالک سے موازنہ کیا جائے، جہاں اعضاء کے عطیہ دہندگان کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ، یعنی فی ملین افراد پر 40 سے زیادہ عطیہ دہندگان ہیں، تو بھارتی تعداد حیران کن حد تک کم ہے۔
بھارت میں اعضا کی پیوندکاری کی ضرورت اور ٹرانسپلانٹ کے لیے دستیاب اعضاء کی اصل تعداد کے درمیان اب بھی بہت بڑا فرق موجود ہے، جس کے نتیجے میں بہت سے ایسے مریض ہلاک ہو جاتے ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے عطیہ کیے گئے اعضاء کی ضرورت ہوتی ہے۔
اعضاء کی طلب فراہمی سے کہیں زیادہ
ڈاکٹروں اور ٹرانسپلانٹ کے ماہرین نے اعضاء کے عطیہ دہندگان کی کمی کی بہت سی وجوہات کی نشاندہی کی ہے، جن میں اعضاء کے عطیہ کے بارے میں آگاہی کا فقدان، اس سے متعلق غلط فہمیاں اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل شامل ہیں۔ بھارت میں اعضاء کی پیوند کاری بنیادی طور پر ان عطیہ دہندگان کے ذریعہ ہو پاتی ہے، جو اپنی زندگی میں کسی کے لیے ایسا عطیہ کرتے ہیں، یا اعضاء عطیہ کرنے پر راضی ہوتے ہیں، مثال کے طور پر عموماً گردے کا عطیہ جب وہ زندہ ہوں۔
امریکہ کے بعد بھارت ایسا ملک ہے جہاں زندہ ڈونر ٹرانسپلانٹس کی دوسری سب سے زیادہ تعداد پائی جاتی ہے، تاہم مردہ عطیہ دہندگان کی مدد سے صرف چند ٹرانسپلانٹس ہی ہوتے ہیں۔ اعضاء کے عطیہ اور پیوند کاری کو فروغ دینے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم 'موہن فاؤنڈیشن' سے تعلق رکھنے والے سنیل شراف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سن 2019 میں بھارت میں کیے گئے 9,751 گردوں کی پیوند کاری میں سے 88 فیصد اور جگر کی پیوند کاری کے 2,590 میں سے 77 فیصد میں زندہ عطیہ دہندگان نے اپنے اعضا فراہم کیے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''اس کے مقابلے میں عالمی سطح پر گردے کی 36 فیصد اور جگر کی صرف 19 فیصد پیوند کاری زندہ عطیہ دہندگان کی وجہ ہوئی۔''
کیا سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی اموات سے ڈونر کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے؟
بھارت میں روڈ ٹرانسپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال تقریباً 150,000 لوگ سڑکوں پر مرتے ہیں، یعنی ہر روز اوسطاً 1,000 سے زیادہ حادثات میں تقریبا 400 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ایسے افراد کے اعضاء، جیسے دل، جگر، گردے، آنتیں، آنکھیں، پھیپھڑے اور لبلبہ وغیرہ کو نکال کر محفوظ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ انہیں کسی ایسے دوسرے شخص میں ٹرانسپلانٹ کیا جا سکے، جس کو زندہ رہنے کے لیے ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا ایک مرنے والا عطیہ دہندہ شخص نو افراد تک کی جان بچا سکتا ہے۔
لیکن صحت سے وابستہ پیشہ ور افراد فوت ہونے والے کنبہ کے ایسے افراد کے رشتہ داروں سے اعضاء عطیہ کرنے کے موضوع پر بات کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ نئی دہلی کے سری گنگا رام ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر سمیرن نندی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ڈاکٹر مردہ عطیہ کرنے والے اعضاء کے بارے میں پوچھنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ کوئی ترغیب نہ ہونے کے ساتھ بھی انہیں انتقام کا بھی خوف رہتا ہے۔''
بنیادی ڈھانچے کے مسائل
لیکن اگر زیادہ لوگ اعضاء کے عطیہ کے لیے تیار ہوں، تب بھی تمام اسپتال اعضاء کی پیوند کاری اور بازیافت کے عمل کو انجام دینے کی تکنیک سے لیس نہیں ہیں۔ صرف 250 اسپتال ہی ایسے ہیں، جنہوں نے ملک کی 'نیشنل آرگن اینڈ ٹشو ٹرانسپلانٹ' کے ساتھ اپنے آپ کو رجسٹر کیا ہے، یعنی ہر 4.3 ملین شہریوں کے لیے بس ایک ایسی سہولت سے لیس ہسپتال ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ٹرانسپلانٹ مراکز اس سے بھی بہت کم ہیں۔
انڈین ٹرانسپلانٹ نیوز لیٹر میں حالیہ تحریر کیے گئے ایک مضمون کے مطابق اعضاء کے عطیات ایسی نگہداشت کا بند و بست بیشتر کارپوریٹ ہسپتالوں میں ہے جبکہ سرکاری شعبے کے ہسپتالوں کا حصہ 15 فیصد سے بھی کم ہے۔ تحقیق کے مطابق ''بھارت میں مردہ عطیہ دہندگان کی حقیقی صلاحیت سرکاری شعبے کے اسپتالوں میں ہے، جہاں سر پر چوٹ کے کیسز کی ایک بڑی تعداد ان کے طبی قانونی اثرات کی وجہ سے داخل کی جاتی ہے۔''
''اگر ہر ریاست میں مردہ عطیہ دہندگان پر توجہ مرکوز کرنے والا صرف ایک نوڈل ہسپتال ہو، تو یہ اعضاء کی عطیہ کی شرح کو بہتر بنا سکتا ہے اور غریب طبقے کے مریضوں کو ٹرانسپلانٹ کے لیے زیادہ سستی چوائسز بھی فراہم کر سکتا ہے۔''
آگے بڑھنے کا راستہ
سن 2020 میں عالمی سطح پر اعضاء کے عطیات کی تعداد تقریباً 130,000 تک پہنچی، جبکہ امریکہ اور یورپ میں گردے کی پیوندکاری کا سب سے بڑا تناسب ہے۔ تاہم افریقہ میں ایسے ٹرانسپلانٹس کا تناسب سب سے کم ہے۔ گرچہ بھارتی حکومت اعضاء عطیہ کرنے پر زور دے رہی ہے، لیکن ابھی اسے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ بہت سے ماہرین نے اس جانب بھی نشاندہی کی ہے کہ شہریوں اور طبی پیشہ ور افراد میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کوئی مسلسل اشتہاری مہم نہیں چلائی گئی۔
مارچ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ماہانہ ریڈیو نشریات کے دوران لوگوں سے اعضاء عطیہ کرنے کا انتخاب کرنے کی اپیل کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت یکساں پالیسی پر کام کر رہی ہے جو اعضاء کے عطیہ کی حوصلہ افزائی کو اور آسان بنائے گی۔
تازہ ترین قومی صحت کے پروفائل کے مطابق بھارت ان ممالک میں شامل ہے، جہاں صحت عامہ پر سب سے کم رقم خرچ کی جاتی ہے۔ نئی دہلی کو امید ہے کہ وہ 2025 تک ملک کی جی ڈی پی کا ڈھائی فیصد صحت کی دیکھ بھال میں لگائے گی، لیکن یہ اب بھی عالمی اوسط سے تقریباً چھ فیصد سے کم ہے۔
ننڈی کا کہنا ہے کہ ''ملک کے ڈاکٹروں اور عوام میں زیادہ تعلیم اور بیداری سے ہی اعضاء کی عطیہ کی شرح بہتر ہو سکتی ہے اور اس کے ساتھ ہی عطیہ دہندگان کے خاندانوں کی ستائش کرنے کی ضرورت ہے۔''
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔