انڈونیشی فوج میں بھرتی، خاتون کا کنوارا ہونا ضروری نہیں

انڈونیشی فوج نے بھرتی ہونے والی خواتین کے لیے کنوارہ ہونے کے ٹیسٹ کو ختم کر دیا ہے۔ اس اقدام کو انڈونیشیا میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے خوش آئند قرار دیا ہے۔

علامتی فائل تصویر آئی اےاین ایس
علامتی فائل تصویر آئی اےاین ایس
user

Dw

انڈونیشی فوج میں نئی خواتین کیڈٹس کی بھرتی کے لیے ایک مناسب پیش رفت کا اعلان فوج کے سربراہ نے کیا ہے۔ اس تناظر میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ بھی جکارتہ حکومت اور فوج سے گزشتہ برسوں میں متعدد مرتبہ مطالبہ کر چکی ہے۔ اندرون انڈونیشیا بھی خواتین کے حقوق کی تنظیمیں اس ٹیسٹ کی مناسبت سے اپنا احتجاج ڈھکے چھپے انداز میں جاری رکھے ہوئے تھیں۔

انڈونیشی فوج کے سربراہ کا بیان

مشرقِ بعید کے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا کی فوج کے چیف آف اسٹاف انڈیکا پرکاسا نے صحافیوں کو بتایا کہ اب فوج میں بھرتی کے لیے کسی خاتون کے باکرہ ہونے کا ٹیسٹ نہیں کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔ ایک ہفتہ قبل انڈیکا پرکاسا نے ایک اور بیان میں کہا تھا کہ فوج میں بھرتی کے خواہشمند نوجوان مردوں اور عورتوں کے ٹیسٹس مساوی ہونے ضروری ہیں اور ان میں کسی قسم کا فرق نہیں رکھا جائے گا۔


اس مناسبت سے انڈونیشی فوج کے سربراہ کے ترجمان جولیئس وِدجوجونو نے اپنے چیف آف اسٹاف کے تازہ بیان کی تصدیق کرتے ہوئے یہ ضرور واضح کیا کہ بحری فوج میں شمولیت کی خواتین کے حاملہ ٹیسٹ ابتدائی طبی چیک اپ میں شامل ہے لیکن اس میں بھی کنوارے ہونے کا ٹیسٹ نہیں لیا جاتا۔

انڈونیشی ایئر فورس کے ترجمان اندمان گیلانگ کا کہنا ہے کہ ایئر فورس میں بھرتی ہونے والی کسی خاتون کے کلینیکل ٹیسٹس کا مقصد یہ ہے کہ اس کی بیضہ دانی یا اووریز یا رحم میں کسی سسٹ کی موجودگی تو نہیں یا کوئی پیچیدگی تو نہیں پائی جاتی، جو ملازمت میں مشکل کا باعث ہو۔ گیلانگ نے بھی بتایا کہ ایئر فروس میں بھی بھرتی لے لیے اب ورجِن ہونے کا کوئی ٹیسٹ نہیں لیا جاتا۔


فوج کا سابقہ موقف

ماضی میں بھرتی ہونے والی خاتون کے باکرہ ہونے کے ٹیسٹ کے حوالے سے اپنا موقف پیش کیا تھا۔ اس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ اس ٹیسٹ کی بنیاد خاتون امیدوار کے اخلاقی اقدار سے جڑے ہونے سے تھی۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کا موقف ہے کہ کسی ںوجوان خاتون کے باکرہ ہونے کے لیے ہائمن کی موجودگی کوئی سائنسی توجیح نہیں ہے اور نہ ہی اس کی عدم موجودگی سے یہ تعین ہو سکتا ہے کہ جنسی فعل کیا جا چکا ہے۔

خیرمقدم

اندونیشی انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے اس پیش رفت کا خیرمقدم کیا ہے۔ خواتین پر تشدد کی نگرانی کرنے والے ایک انڈونیشی ادارے Commission on Violence Against Women کے سربراہ اینڈی ینترییانی نے کہا ہے کہ اس اقدام کی ضرورت بہت پہلے سی تھی اور ایسے ٹیسٹ کی اہمیت کبھی بھی نہیں رہی۔


ہیومن رائٹس واچ سے منسلک انسانی حقوق کے ریسرچر اندریاس ہورسونو نے اپنے خیرمقدمی بیان میں کہا کہ یہ درست سمت میں ایک قدم ہے۔ ہورسونو کے مطابق سن 1965 میں بھرتی ہونے والی ایک سو سے زائد خواتین نے بتایا ہے کہ انہیں 'ٹو فنگر ٹیسٹ‘ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ہیومن رائٹس واچ

امریکی شہر نیویارک میں قائم انسانی حقوق کے انٹرنیشنل ادارے نے انڈونیشی فوج میں ڈاکٹر کی جانب سے کسی بھرتی ہونے والی خاتون کے کنوارے ہونے کے قدیمی 'ٹُو فِنگر ٹیسٹ‘ کو ایک ظالمانہ اور استحصالی عمل قرار دے رکھا تھا۔ اس تناظر میں حقوق کے اس ادارے نے ایک انکوائری رپورٹ بھی مرتب کی تھی۔


اس رپورٹ کے لیے مطلوبہ مواد سن 2014 اور سن 2015 میں جمع کیا گیا تھا۔ اس بین الاقوامی ادارے نے سن 2017 کے بعد سے مسلسل انڈونیشی فوج کی قیادت اور جکارتہ حکومت سے اس ٹیسٹ کو ختم کرنے کا مطالبہ شروع کر رکھا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔