نیوزی لینڈ: تمباکو نوشی پر اب مکمل پابندی نہیں لگ سکتی

نیوزی لینڈ میں تمباکو نوشی مخالف قوانین متعارف کرانے پر سابق وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کی دنیا بھر میں تعریف ہوئی تھی۔ماہرین نے نئی حکومت کی ان قوانین کی منسوخی کو عوامی صحت کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے۔

نیوزی لینڈ: تمباکو نوشی  پر اب مکمل پابندی نہیں لگ سکتی
نیوزی لینڈ: تمباکو نوشی پر اب مکمل پابندی نہیں لگ سکتی
user

Dw

نیوزی لینڈ میں ڈاکٹروں نے نئی قدامت پسند حکومت کے انسداد تمباکو نوشی کے قوانین کو منسوخ کرنے کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ "صحت عامہ کو تباہ کرنے" کے اس اقدام سے لوگ بے موت مر جائیں گے۔

سابق وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کی حکومت نے ملک میں انسداد تمباکو نوشی کے جو قوانین منظور کیے تھے، انہیں سگریٹ نوشی کے خلاف ایک بڑی جنگ قرار دیا گیا تھا اور دنیا بھر میں ان کی تعریف ہوئی تھی۔ لیکن نئے وزیر اعظم کرسٹوفر لکسن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے دن ہی ان قوانین کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ صحت عامہ کے ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس اعلان سے نیوزی لینڈ کی ساکھ خراب ہو گی۔


اوٹاگو یونیورسٹی میں سموکنگ کنٹرول کے شعبے کے ماہر رچرڈ ایڈورڈز نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملکی صحت عامہ کو ایک "سانحہ" درپیش ہے، حالانکہ نیوزی لینڈ کو سن 2025 تک تمباکو نوشی سے مکمل طور پر پاک کر دینے کا تصور کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا، "اس کی ہم نے توقع نہیں کی تھی۔ ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی حکومت ایسا بھی کر سکتی ہے۔ میں تو انتہائی حیرت زدہ اور خوف زدہ رہ گیا۔ میری یادداشت میں یہ صحت عامہ کے لیے بدترین دنوں میں سے ایک ہے۔ یہ صحت عامہ کی تباہی ہے۔"


رائل نیوزی لینڈ کالج آف جنرل پریکٹیشنرز کی صدر ڈاکٹر سمانتھا مورٹن نے بھی حکومت کے اس فیصلے کی نکتہ چینی کی ہے۔انہوں نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا، "ہم حیران ہیں کہ آپ کس طرح کسی ایسی چیز کو منسوخ کر سکتے ہیں، جس کی اتنے وسیع پیمانے پر حمایت کی گئی اور جو بہت ساری اموات کو روک سکتی ہے۔"

انسداد تمباکو نوشی قانون کیا ہے؟

نیوزی لینڈ میں سابقہ حکومت نے "تمباکو نوشی پر عمومی پابندی" عائد کر دی تھی۔ اس کے تحت سن 2008کے بعد پیدا ہونے والے کسی بھی شخص کو سگریٹ فروخت کرنا غیر قانونی تھا۔ دیگر اقدامات کے ذریعہ سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کو سگریٹ میں نکوٹین کی مقدار کم کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور ایسی مصنوعات فروخت کرنے کے لیے مجاز دکانوں کی تعداد چھ ہزار سے کم کرکے چھ سو کیا جانا تھا۔


ایڈورڈز کا کہنا تھا، "ان اقدامات میں سے کوئی بھی دنیا میں کسی بھی ملک میں اب تک قومی سطح پر نافذ نہیں کیے گئے۔ یہ انتہائی اختراعی تھے۔ یہ تمباکو نوشی کو کم کرنے پر گہرا اثر ڈالنے والے تھے۔ لیکن اب یہ سب ختم ہو جائے گا۔"

نیوزی لینڈ کے اقدام کی پیروی

نیوزی لینڈ سے متاثر ہو کر کئی دیگر ممالک بھی سگریٹ کے خلاف کارروائی کے لیے اسی طرح کے اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے رواں سال اکتوبر میں کنزرویٹیو پارٹی کی کانفرنس میں "تمباکو نوشی پر پابندی" کی تجویز پیش کی تھی۔ ایڈورڈز نے کہا کہ نیوزی لینڈ ایک بڑا موقع ضائع کررہا ہے اور اس نے صحت عامہ کے حوالے سے عالمی سطح پر اپنی ساکھ تباہ کرلی۔


انہوں نے کہا، "دنیا کے دیگر ملکوں کے بہت سارے افراد اس کارروائی سے پریشان ہیں کیونکہ وہ اس حوالے سے نیوزی لینڈ کو قائدانہ پوزیشن میں دیکھ رہے تھے۔اس کے عالمی مضمرات ہیں۔ یہ ایک تباہ کن اور خوف ناک اقدام ہے۔"

وزیر اعظم لکسن کا ردعمل

نیوزی لینڈ میں بالغ تمباکو نوشوں کی تعداد نسبتاً کم ہے لیکن تمباکو سے متعلق بیماریوں نے ملک کی بالخصوص اصل ماوری قبائلی آبادی کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔ ایک رضاکار تنظیم' اسموک فری اوٹیاروا' کے مطابق ماوری خواتین میں پھیپھڑوں کے کینسر کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔


بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نئی حکومت سگریٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والے ٹیکس کی آمدنی سے اپنے خزانے میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ اس نے حالیہ عام انتخابات کے دوران سگریٹ نوشی کا شاید ہی ذکر کیا تھا۔ دریں اثنا وزیر اعظم لکسن کا کہنا ہے کہ سگریٹ پر پابندی عائد کرنے کے سبب بغیر ٹیکس کا بلیک مارکیٹ پھلنے پھولنے لگا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔