مرد جسم فروشوں کے حقوق کا بھی تحفظ کیا جائے، ایمسٹرڈم میں مہم
ایمسٹرڈم کا مشہور زمانہ ریڈ لائٹ علاقہ خواتین اور ٹرانس جینڈر جسم فروشوں کے لیے مخصوص ہے لیکن اب مرد جسم فروش بھی وہاں اپنی موجودگی دکھانا چاہتے ہیں۔
ایمسٹرڈم کا ریڈ لائٹ ایریا روایتی طور پر خواتین اور ٹرانس جینڈر جسم فروشوں کے حوالے سے مشہور ہے۔ یورپ کے لبرل ترین شہر ایمسٹرڈم کے اس مخصوص علاقے میں شیشے کی کھڑکیوں سے گاہکوں کو لبھاتی جسم فروش خواتین اور ٹرانس جینڈر افراد کی بھرمار ہوتی ہے۔ لیکن جسم فروشی کے اس بازار میں مرد جسم فروشوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
تاہم اب مرد جسم فرشوں کے حقوق کے لیے سرگرم گروپوں کو امید ہے کہ ایمسٹرڈم کے اس علاقے میں مرد جسم فروش بھی اپنی خدمات پیش کر سکیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ہر جنس کے افراد کو کاروبار کرنے کی اجازت ہونا چاہیے۔ برابری کی یہ مہم دراصل 'گے پریڈ فیسٹیول‘ کا حصہ ہے۔
ہفتہ تین اگست کی رات ایمسٹرڈم کے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ میں کئی مردوں نے بھی نیم برہنہ حالت میں جسم فروشی کے لیے مخصوص سرخ بتی والی کھڑکیوں میں کھڑے ہو کر گاہکوں کی توجہ بٹورنے کی کوشش کی۔
ایمسٹرڈم کے ڈی والن نامی اس علاقے میں جسم فروش ایک کمرہ کرائے پر لیتے ہیں، جہاں وہ اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ اس علاقے میں تقریباﹰ تین سو ایسے کمرے ہیں، جو جسم فروش استعمال کرتے ہیں۔ ان کمروں کے دروازے شیشے کے ہوتے ہیں، جہاں وہ نیم برہنہ حالت میں گاہکوں کو لبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہالینڈ میں جسم فروشوں کی تعداد تقریباﹰ پچیس ہزار بنتی ہے، جن میں مردوں کا تناسب صرف پانچ فیصد ہے۔ اس یورپی ملک میں مرد جسم فروش کھلے عام شاز و نادر ہی نظر آتے ہیں۔
ایمسٹرڈم کے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ پر نام نہاد 'قبضہ کرنے‘ والے ان مرد جسم فروشوں کی مہم کا انتظام ایک غیر سرکاری ادارے نے کیا تھا۔ اس گروپ نے جسم فروشوں کو کرائے پر کمرے دینے والے مالکان اور جسم فروشوں کے حالات کو بہتر بنانے والے 'مائی ریڈ لائٹ گروپ‘ سے مطالبہ کیا کہ مرد جسم فروشوں کے حقوق کا بھی احترام کیا جائے۔
احتجاج کرنے والے گروپ کے مطابق مرد جسم فروشوں کو بھی کام کرنے کی خاطر محفوظ مقامات درکار ہیں۔ اس گروپ کے مطابق متعدد مرد جسم فروشوں کو بھی اپنی خدمات مہیا کرتے ہوئے تشدد، زیادتی اور استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس گروپ کے مطابق ہفتے کی شب جن مردوں نے ایمسٹرڈم کے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ میں جسم فروشوں والے کمروں میں کھڑے ہو کر احتجاج کیا تھا، وہ جسم فروش نہیں تھے بلکہ ماڈلز تھے۔ بتایا گیا ہے کہ انہوں نے صرف مرد جسم فروشوں کی حالت زار لوگوں تک پہنچانے کی خاطر اس ماڈلنگ کی حامی بھری تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔