بھارت:اسکولی نصاب میں تبدیلی علمی بنیاد پر نہیں بلکہ سیاسی مفادات کے مد نظر

متعدد ریاستوں کی بی جے پی حکومتیں ہندو قوم پرست نظریات کو فروغ دینے کے لیے نیا نصاب اسکولوں میں نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ماہرین نے جمہوری بھارت میں اس طرح کے اقدامات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بھارت: ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی بی جے پی کوششیں
بھارت: ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کی بی جے پی کوششیں
user

Dw

ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست کرناٹک میں گزشتہ دنوں اس وقت ایک نیا تنازعہ پیدا ہو گیا، جب ریاستی حکومت نے اسکول کی نصابی کتابوں میں ترمیم کرنے کی کوشش کی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت ان تبدیلیوں کے ذریعے دراصل ہندو قوم پرستی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

کرناٹک کی حکومت نصاب میں کس حد تک ترمیم کرناچاہتی ہے یہ ابھی واضح نہیں کیونکہ نئی کتابیں ابھی دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم میڈیا رپورٹوں کے مطابق دلت سماجی مصلح پیریار اور نارائن گرو، جنگ آزادی کے سورما بھگت سنگھ اور ایسی دیگر شخصیات سے متعلق مضامین کتابوں سے حذف کر دیے گئے ہیں۔


اطلاعات کے مطابق ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس کے بانی کے ایچ ہیڈگوار کی ایک تقریر نصابی کتابوں میں شامل کی جا رہی ہے۔ خیال رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنا سیاسی کیریئر آر ایس ایس سے ہی شروع کیا تھا، جو حکمراں بی جے پی کی مربی تنظیم بھی ہے۔ تقریباً 60 لاکھ اراکین پر مشتمل آر ایس ایس کی درجنوں ذیلی تنظیمیں بھارت اور دنیا کے مختلف ملکوں میں ہندوتوا کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں۔

تشویش کا سبب

بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستیں مثلاً گجرات، اتراکھنڈ اور ہریانہ نے بھی آئندہ تعلیمی سال سے نصاب میں ہندوؤں کی مقدس سمجھی جانے والی کتاب بھگوت گیتا شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔


اتراکھنڈ کے وزیر تعلیم دھن سنگھ راوت نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''آئندہ سال سے قومی تعلیمی پالیسی نافذ کی جائے گی۔ ہم ویدوں، گیتا، رامائن اور اتراکھنڈ کی تاریخ کو نصاب میں شامل کریں گے۔‘‘ ماہرین تعلیم، بی جے پی کے ناقدین اور اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے نصابی کتابوں میں مجوزہ تبدیلیوں پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بھارتی تاریخ کو ہندو قوم پرست جماعت کے نقطہ نظر سے لکھنے کی کوشش ہے۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں مرکز برائے مطالعہ تاریخ میں پروفیسر آر مہالکشمی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''اسکول کی سطح پر نصابی کتابوں میں مجوزہ تبدیلی تشویش کا سبب ہے کیونکہ اسے علمی بنیادوں پر نہیں بلکہ سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔‘‘


ناقدین کا کہنا ہے کہ سن 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی آ ر ایس ایس جیسی دائیں بازو کی تنظیموں نے حکومت کے بیشتر اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے اور بالخصوص نئی تعلیمی پالیسیوں کو اپنے دائرہ اثر میں لے لیا ہے۔

حقیقی تاریخ پیش کرنے کا دعویٰ

بی جے پی کے رکن پارلیمان ونئے سہسرا بدھے کی قیادت والی تعلیم پر پارلیمانی کمیٹی نے گزشتہ برس تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں کی تجویز پیش کی تھی۔ کمیٹی کا کہنا تھا کہ اسکول کی کتابوں میں بہت سی تاریخی شخصیات اور مجاہدین آزادی کو "غلط اور نامناسب انداز" میں پیش کیا گیا ہے اور بالخصوص تاریخ کی نصابی کتابوں میں ان کو درست کیا جانا چاہیے۔"


کمیٹی نے ہندو مذہبی کتابوں مثلاً وید، گیتا اور رامائن وغیرہ میں درج قدیم علوم اور معلومات کو بھی نصاب میں شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

سہسرا بدھے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ ہم اپنے نظریاتی موقف کے مطابق نصاب کو تبدیل کر رہے ہیں۔ کیا (اپوزیشن) کانگریس نے اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے ایسا نہیں کیا تھا جب اس نے اپنے ووٹ بینک کی سیاست کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکولوں کا نصاب تیار کرایا تھا۔"


سہسرابدھے کا کہنا تھا، "ہم صحیح تاریخ عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ ایک طویل مدت سے اس کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اسکول کی نصابی کتابیں بچوں کی ذہن سازی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اس لیے انہیں وقتاً فوقتاً اپ ڈیٹ کرتے رہنا ضروری ہے۔"

ناقدین کا احتجاج

مہالکشمی کہتی ہیں کہ یہ تاریخ کو مخصوص اور محدود نظریے سے پیش کرنے کی غلط کوشش ہے۔ کرناٹک میں نصابی کتابوں میں ترمیم کے ناقدین اگلے ہفتے عوامی مظاہرہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ معروف ماہرین تعلیم اور مصنفین نے ایک کھلے خط میں مجوزہ تبدیلوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فیصلے سیاسی افراد کے بجائے ماہرین کے ذریعہ کیے جانے چاہییں۔


مورخ نارائنی گپتا کا کہنا تھا کہ اسکول کی نصابی کتابوں میں کسی طرح کی ترمیم جامع تحقیقات کے بعد ہی کی جانی چاہیے اور اس کا مقصد تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ہونا چاہیے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’اسکول کے اساتذہ کے ساتھ نہ تو جامع صلاح و مشورہ کیا گیا اور نہ ہی نصابی کتابوں کی جانچ کی گئی۔ کم از کم ماہرین سے آن لائن مشورے ہی لے لیے جاتے۔ جذبات کو مجروح ہونے کا حوالہ دے کر نصابی کتابوں میں تبدیلی کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔