ہوا میں محبت، سانس لینے سے بھی جنسی خواہش کا اظہار ہوتا ہے
ایسے کچھ بہت واضح اشارے ہیں، جو کسی شخص میں جنسی بیداری کو عیاں کرتے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ سپرے کی طرح آپ کا جسم بھی سیکس کی خواہش کا اظہار کرتا ہے؟ ایسا سانس لینے سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
خون جسم کے بعض حصوں میں دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور آنکھوں کی پُتلیاں پھیل جاتی ہیں۔ اگر یہ سب کچھ ایک ساتھ ہو تو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ انسان اس وقت جنسی طور پر بیدار ہے۔
ایسے اشاروں سے زیادہ تر لوگ پہلے ہی آگاہ ہیں۔ لیکن اب پرتگال کی پورٹو یونیورسٹی میں انسانی جنسیت پر تحقیقی لیبارٹری یا مختصر طور پر سیکس لیب کے جنسی محققین نے ایک نئی اور حیران کن دریافت کی ہے۔ جرمن شہر مائنز میں ماکس پلانک انسٹی ٹیوٹ برائے کیمسٹری بھی اس تحقیق میں شامل تھا۔
اس مشترکہ تحقیق میں سائنسدانوں نے پتا چلایا ہے کہ کسی شخص میں جنسی عمل کرنے کی خواہش کا اظہار ایک دوسرے راستے سے بھی ہوتا ہے اور وہ ہے سانس لینے کا راستہ۔ جوناتھن ولیمز دراصل ایک ماحولیاتی کیمیا دان ہیں، جو استوائی جنگلات یا بڑے شہروں میں مختلف نامیاتی مرکبات کے لیے ہوا کا جائزہ لیتے ہیں۔
تاہم 2018ء میں ولیمز اور ان کی ٹیم نے مائنز کی جوہانس گٹن برگ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر ایک مطالعہ شائع کیا تھا، جس کے لیے انہوں نے سنیما ہالوں کی ہوا میں ایک خاص مالیکیول آئیسوپرین کے ارتکاز کی پیمائش کی تھی۔ اس مادے کا ارتکاز، اس ہوا میں بڑھ جاتا ہے، جس میں لوگ خوفزدہ ہو کر سانس لیتے ہیں۔
ولیمز نے ہنستے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس مطالعے پر لوگوں نے بہت توجہ دی تھی۔‘‘ اور اس مطالعے کو 2021ء میں کیمسٹری کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ کم از کم تب سے ان کو جذبات کی کیمسٹری میں بھی دلچسپی رہی ہے۔
جنسی جوش کی کیمسٹری
یہ صرف ایک چھوٹا سا پائلٹ مطالعہ تھا، جس کے لیے پورٹو یونیورسٹی کی سیکس لیب میں 12 مردوں اور 12 خواتین کو ایک اسکرین کے سامنے بٹھایا گیا تھا۔ ان کو 10 منٹ کی مختلف ویڈیوز بے ترتیب طریقے سے دکھائی گئیں۔ ان میں سے ایک فطرت سے متعلق دستاویزی فلم، ایک ہارر فلم، ایک فٹ بال گیم اور ایک پورن فلم تھی۔
اس دوران جنسی محققین نے مختلف سینسروں کا استعمال کرتے ہوئے جنسی اعضاء میں تحریک پیدا ہونے کی پیمائش کی اور ماحولیاتی کیمیا دانوں نے مطالعے میں شامل افراد کی سانس کی ہوا کا تجزیہ کیا۔ فلمی کلپس کے ذریعے شرکاء کی جذباتی کیفیت تو تبدیل ہوئی لیکن سانس کے اہم کیمیائی اجزا کی سطح، جیسے کہ ایسیٹون یا میتھانول وغیرہ میں کوئی فرق نہیں آیا۔
ولیمز کہتے ہیں، ''اس کے بجائے کچھ ایسے ٹریس ایبل عناصر تھے، جن کی سطح میں تیزی سے اتار چڑھاؤ پیدا ہوتا تھا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''اگرچہ جنسی خواہش یقیناً بہت انفرادی چیز ہے لیکن ہمیں کچھ بہت واضح کیمیائی اشارے ملے ہیں، جو جنسی خواہش کے ارتکاز میں اضافے کا بتاتے ہیں۔‘‘
ان مادوں کو فینول، کریسول اور انڈول کہا جاتا ہے۔ پروفیسر ولیمز کے بقول انڈول میں اضافہ خاص طور پر دلچسپ ہے، ''زیادہ ارتکاز میں یہی چیز پاخانے کی بدبو کا سبب بنتی ہے۔‘‘ دوسری طرف اگر اس مادے کی مقدار انتہائی کم ہو جیسے کہ اس کی انسانی سانس میں موجودگی، تب یہ نام نہاد ہیٹروسائیکلک مرکب پھولوں کی مہک کا احساس دیتا ہے اور اس وجہ سے یہ اکثر پرفیوم کا جزو ہوتا ہے۔ اس کیمیا دان کا کہنا تھا، ''پرفیوم میں یہ ایک ایسا جزو ہے، جو خوشبو کو سیکسی ٹچ دیتا ہے۔‘‘
اس کے برعکس، آئسوپرین کی سطح ( خوف کی بو)، جس کی شناخت ولیمز اور ان کے ساتھیوں نے سنیما کے مطالعے میں کی تھی، نمایاں طور پر گر گئی جب شرکاء نے جنسی فلم دیکھی۔
کیا سانسوں سے جنسی خواہش کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؟
مطالعے کے مطابق مردوں میں سانس کا تجزیہ خواتین کے مقابلے میں زیادہ واضح تھا۔ خواتین کے سانس میں جنسی خواہش کے کیمیائی نشانات میں اضافہ کم واضح تھا اور جنسی اعضاء کی پیمائش سے یہ بھی پتا چلا کچھ خواتین کے لیے جنسی فلم اتنی متاثر کن نہیں تھی، جتنی کہ مرد شرکاء کے لیے تھی۔
لیکن کیا ساتھی کے سانس سے اس کے جنسی جذبے کی شدت کو محسوس کیا جا سکتا ہے؟ ولیمز کے بقول یہ بہت چھوٹا مطالعہ تھا لیکن فالو اپ مطالعات سے شاید اس 'سنہری سوال‘ کا یقینی جواب مل جائے۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ جب جنسی خواہش بڑھتی ہے تو سانس میں بھی کیمیائی مادے پیدا ہوتے ہیں اور آلات سے ان کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔