کیا ہے کلب ہاؤس ایپ جس کی جرمنی میں بہت چرچا ہے
کلب ہاؤس نامی آڈیو نیٹ ورکنگ ایپ جرمنی میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ ایک عارضی رجحان ہے یا اس ایپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا آغاز۔
سوشل میڈیا کی دیگر ایپس کی نسبت یہ ایپ ابھی محدود لوگ ہی استعمال کر رہے ہیں، جن میں میڈیا اور سیاست کی مشہور شخصیات شامل ہیں۔ اگر ٹوئٹر الفاظ پر مشتمل مختصر پیغامات کے لیے مشہور ہے اور انسٹاگرام تصاویر کی وجہ سے، تو کلب ہاؤس کی خاص بات آواز کے ذریعے رابطہ کاری ہے۔
کورونا کے بحران کے دوران لوگوں کا کافی وقت ویڈیو کانفرنسوں میں صرف ہو رہا ہے۔ لیکن جرمنی میں ڈيجیٹل ماہرین کے مطابق ایسے میں لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دفتری کام کے بعد انہیں کیمرے کے آگے نہ بیٹھنا پڑے اور وہ دیگر لوگوں کے ساتھ آواز کے ذریعے رابطہ رکھ سکیں۔
کلب ہاؤس ایپ فی الحال ایپل آئی او ایس سسٹم پر دستیاب ہے اور اینڈرائڈ فون رکھنے والوں کی پہنچ سے باہر ہے۔ نئے لوگ یہ ایپ تبھی ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں جب اس کا کوئی صارف آپ کو اس کی دعوت بھیجے۔ یہی وجہ ہے کہ کلب ہاؤس کے صارفین کی تعداد میں قدرے آہستہ اضافہ ہوا۔
یہ ایپ امریکا میں پچھلے سال اپریل میں لانچ کیا گیا تھا۔ سال کے آخر تک اس کے دنیا میں چھ لاکھ صارفین تھے۔ لیکن جرمنی میں اس ہفتے کلب ہاؤس آئی فون پر سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ بن گئی۔
کلب ہاؤس کے مطابق یہ ایپ لوگوں کو حقیقی بات چیت اور اظہار کا موقع فراہم کرتا ہے، جہاں لوگ لائیو گفتگو اور پوڈ کاسٹنگ کے ذریعے مکالمہ کر سکتے ہیں۔ آپ چاہیں تو کسی بھی موضوع پر ورچوئل روم قائم کرستے ہیں اور کوئی بھی صارف اس گفتگو کا حصہ بن سکتا ہے۔ آپ کو کچھ کہنا ہو تو آپ ہاتھ اٹھانے کا اشارہ کر سکتے ہیں لیکن اس ایپ میں یہ میزبان پر منحصر ہے کہ وہ آپ کو بولنے کا موقع دے یا نہ دے۔ بعض اوقات ان ورچوئل کمروں میں نامور لوگوں کو سننے کے لیے سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ شامل ہوتے ہیں۔ گو کہ دیگر ایپس کے برعکس وہ بغیر اجازت نہ اپنا کوئی ردعمل دے سکتے ہیں نہ اپنی رائے دے سکتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ کلب ہاؤس ایپ اب تک ایک مخصوص اور محدود حلقے میں ہی مقبول رہا ہے۔ ناقدین کے مطابق چونکہ اس میں ہر طرح کے آدمی کو ہر طرح کی بات کرنے کی سہولت نہیں اس لیے اس میں وہی لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں جو ایک خاص طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
کلب ہاؤس کا ایک فیچر یہ ہے کہ اس پر جو بھی گفتگو ہوتی ہے وہ لائیو ہوتی ہے اور اسے ریکارڈ نہیں کیا جا سکتا۔ بعض ناقدین کے مطابق اس سے یہ دیکھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ان ورچوئل کمروں میں کن موضوعات پر اظہار خیال ہو رہا ہے۔
بعض حلقوں کی جانب سے کلب ہاؤس پر عدم شفافیت کے الزامات بھی لگے ہیں۔ اطلاعات ہیں کے اس کے ورچوئل کمروں میں کھل کر نسلی اور صنفی تعصب اور جھوٹ کا پرچار بھی کیا جاتا ہے لیکن اس کی بظاہر کوئی جواب دہی نہیں ہوئی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کلب ہاؤس کی حالیہ مقبولیت بڑھتی جائے گی یا یہ رجحان عارضی ثابت ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی اس مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ٹوئٹر اور فیس بک جیسی بڑی بڑی سوشل میڈیا کمپنیاں اس ایپ کے آڈیو فیچرز کو اپنی ایپس میں متعارف کرا لیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔