صدیوں تک انسانوں کو غلام بنانے پر نیدرلینڈز معافی مانگے گا

نیدرلینڈز صدیوں تک انسانوں کو غلام بناتے رہنے پر معافی مانگنے کے تاریخی اقدام کی تیاریاں کر رہا ہے۔ غلام بنائے جانے والے ایسے انسانوں کی موجودہ نسل کے نمائندوں کے مطابق صرف معذرت کرنا ہی کافی نہیں۔

صدیوں تک انسانوں کو غلام بنانے پر نیدرلینڈز معافی مانگے گا
صدیوں تک انسانوں کو غلام بنانے پر نیدرلینڈز معافی مانگے گا
user

Dw

یورپی ملک نیدرلینڈز کی طرف سے انسانوں کو غلام بنانے کی روایت کے خاتمے کو آج قریب ڈیڑھ سو سال ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے ڈچ حکومت اب باقاعدہ معافی مانگنے کے تاریخی اقدام کی تیاریاں کر رہی ہے۔ لیکن ماضی میں غلام بنائے جانے والے لاکھوں انسانوں کے موجودہ لواحقین جن سے معافی مانگی جائے گی، ان کا کہنا ہے کہ ان سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا اور ماضی میں کیے گئے ان جرائم پر صرف معافی مانگنا ہی کافی نہیں ہو گا۔

نیدرلینڈز کے شہر ایمسٹرڈم میں شہر سے گزرنے والی بہت سی نہروں میں سے ایک کے کنارے انتہائی امیر شہریوں کے رہائشی علاقے گولڈن بَینڈ میں ہیرن گراخت نامی سڑک پر شہر کے میئر کی سرکاری رہائش گاہ کے سامنے ایک خاتون کھڑی ہیں، جن کا نام جینیفر ٹوش ہے۔ یہ خاتون سیاہ فام باشندوں کی میراث سے متعلق ایمسٹرڈم کے سیاحتی دورے کرانے والی تنظیم ’بلیک ہیریٹیج ٹورز ایمسٹرڈم‘ کی بانی ہیں۔


جینیفر ٹوش خود تو امریکہ میں پیدا ہوئی تھیں لیکن ان کے والدین کا تعلق سوری نام سے تھا۔ وہ ایمسٹرڈم کے میئر کی سرکاری رہائش گاہ کے مرکزی دروازے کے سامنے زمین پر نصب ایک چوکور دھاتی یادگار کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جس پر لکھا ہوا ہے: ''جب تک یاد زندہ ہے، دکھ رائیگاں نہیں جائے گا۔‘‘

یہ عمارت 1672ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس کی تعمیر کروانے والے کاروباری شخص کا نام پاؤلوس گوڈین تھا۔ وہ ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی کے منتظمین میں سے ایک تھا۔ ہیرن گراخت کینال کے کنارے رہنے والے اپنے دیگر ہمسایوں کی طرح یہ شخص بھی اپنے دور کا بہت امیر تاجر تھا۔ اس نے بھی اپنی دولت کا کم از کم ایک بڑا حصہ انسانوں کو غلام بنانے سے ہی حاصل کیا تھا۔


چھ لاکھ غلام نیدرلینڈز لائے گئے

انسانوں کو غلام بنانے اور ان کی تجارت کے صدیوں پر محیط دور میں نیدرلینڈز میں بحری جہازوں کے ذریعے افریقہ سے تقریباﹰ چھ لاکھ انسان غلام بنا کر لائے گئے تھے۔ غلاموں کی یہ تجارت بحر اوقیانوس کے آر پار انسانوں کی تجارت کے مجموعی حجم کے تقریباﹰ پانچ فیصد کے برابر تھی۔ ان غلاموں کو بعد ازاں سوری نام اور کُوراکاؤ کی ڈچ نوآبادیوں کے علاوہ شمالی اور جنوبی امریکی براعظموں میں کئی دیگر یورپی ممالک کی نوآبادیوں میں بھی پہنچا دیا گیا تھا۔

نیدرلینڈز کی طرف سے غلام بنائے گئے افریقی غلاموں کو جبری طور پر بحر ہند میں کئی ڈچ نوآبادیوں میں بھی پہنچایا گیا تھا، جن میں مثال کے طور پر موجودہ انڈونیشیا بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا میں بالی اور جاوا سے غلام بنائے گئے انسانوں کو ان کے ڈچ تاجروں نے تب آج کے جنوبی افریقی خطے میں بھی پہنچا دیا تھا۔


انسانوں کی اس سمندری مال برداری کے دوران بہت سے غلام ہلاک بھی ہو گئے تھے۔ جو بچ گئے تھے وہ اور ان کی اولادیں یورپی نوآبادیوں میں کھیتوں میں غلاموں کے طور پر انتہائی سفاکانہ حالات میں مشقت کرتے رہنے پر مجبور کر دی گئی تھیں۔

صدیوں پہلے کے والی نام غلام کی ہولناک کہانی

انسانوں کی غلاموں کے طور پر تجارت کرنے والے ڈچ تاجر ماضی میں کیا کچھ کرتے رہے تھے، اس کی ایک دل ہلا دینے والی مثال والی (Wally) نامی ایک غلام کی بھی ہے۔ ڈچ نوآبادی سوری نام میں 1707ء میں ایسے غلاموں نے جو بغاوت کی تھی، ان میں گنے کے کھیتوں میں کام کرنے والا ایک غلام والی بھی شامل تھا۔


اس کی زندگی کی کہانی اس تاریخی نمائش میں بھی شامل کی گئی تھی، جس کا اہتمام گزشتہ برس ایمسٹرڈم کے رائش میوزیم نامی شاہی عجائب گھر میں کیا گیا تھا۔ والی کو اپنے آقاؤں کی حکم عدولی پر جو سزا دی گئی تھی، اس کے تحت دہکتی ہوئی دھاتی چمٹیوں سے اس کے جسم سے کھال ادھیڑ دی گئی تھی اور بعد ازاں اسے زندہ جلا دیا گیا تھا۔ یہی نہیں والی کی موت کے بعد اس کا سر کاٹ کر ایک نیزے پر چڑھا دیا گیا تھا اور کئی دن تک اس کی اس لیے سرعام نمائش کی جاتی رہی تھی کہ باقی تمام غلام عبرت پکڑیں۔

حکومتی معذرت کا مقصد

نیدرلینڈز کی ثقافتی تاریخ کی ماہر جینیفر ٹوش کہتی ہیں کہ انسانوں کی غلام بنانے او ان کی تجارت کی ڈچ روایت ڈھائی صدیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط تھی۔ اس کی باقیات اور اثرات آج کے ایمسٹرڈم میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس شہر کے باسیوں میں ماضی کی غلاموں کی موجودہ نسلیں بھی شامل ہیں۔


جینیفر ٹوش نے جب 2013ء میں 'بلیک ہیریٹیج ٹورز ایمسٹرڈم‘ کی بنیاد رکھی، تو ان کا مقصد مقامی باشندوں اور غیر ملکی سیاحوں کو ماضی کے ان تلخ حقائق سے آگاہ کرنا تھا، جنہیں صدیوں تک 'دانستہ طور پر نظر انداز‘ کیا جاتا رہا۔ جینیفر ٹوش کہتی ہیں کہ وہ جدید ڈچ معاشرے کی میراث اور تاریک ماضی سے متعلق اس مجرمانہ خاموشی کو توڑنا چاہتی تھیں، جو تب تک تقریباﹰ ہر جگہ اختیار کی جاتی تھی۔

اب لیکن زمانہ بدل چکا ہے اور اس کے تقاضے بھی۔ ڈچ حکومت کا ارادہ ہے کہ وہ آج پیر انیس دسمبر کے روز ماضی میں غلاموں کے طور پر انسانوں کی تجارت میں اپنے کردار پر باقاعدہ طور پر معافی مانگ لے گی۔


ڈچ حکومت اس بارے میں پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر معافی مانگنے کی جو تیاریاں کر رہی ہے، اس بارے میں چند سرکاری دستاویزات کی خفیہ تفصیلات گزشتہ ماہ ہی ملکی میڈیا میں شائع ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد سے حکومت نے کچھ بھی کہنے سے احتراز کیا مگر یہ معاملہ تب سے اب تک مسلسل ملکی ذرائع ابلاغ میں شہ سرخیوں کا موضوع بنا ہوا ہے۔

اربوں یورو کا مالی ازالہ، تلافی گروپوں کا مطالبہ

آج کے نیدرلینڈز میں ماضی کے غلاموں کی موجودہ نسلوں کے نمائندہ افراد اور تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان سے ممکنہ معذرت سے متعلق کوئی مشورہ نہیں کیا اور ماضی کے رویوں سے متعلق صرف کوئی معذرت ہی کافی نہیں ہو گی۔


سوری نام نیشنل ریپئیر کمشین کے سربراہ ارمانڈ زنڈر کہتے ہیں کہ حکومت نے ممکنہ طور پر 200 ملین یورو اس مقصد کے لیے مختص کرنے کا ارادہ کیا ہے کہ ملک میں انسانوں کو غلام بنانے کے ماضی کے رویوں سے متعلق عوامی شعور بیدار کیا جائے۔ اس کے علاوہ 27 ملین یورو اس سلسلے میں ایک نئے میوزیم کی تعمیر کے لیے بھی مختص کیے جائیں گے۔

ارمانڈ زنڈر کے بقول یہ معمولی سے علامتی اقدامات کافی نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا، ''جو کچھ جس وسیع پیمانے پر تباہ کیا گیا، اس کی مرمت، ازالہ اور تلافی بھی اسی پیمانے پر کیے جانا چاہییں۔‘‘ زنڈر کے مطابق منصفانہ تلافی اور ازالے کے لیے صرف چند سو ملین یورو نہیں بلکہ اربوں یورو درکار ہوں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔