اس وقت ہمیں مکالمے کی ضرورت ہے!
مکالمہ ایک پُر معنی جملہ ہوتا ہے اور اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ اچھے مکالمے کی اہمیت انسانی زندگی میں ہر وقت موجود رہتی ہے۔ ایک اچھا مکالمہ بہت سے ان کہے مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
مکالمہ اس وقت، وقت کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہمیں ایسے مکالمے کی ضرورت ہے، جس سے ہمارے معاشرے میں مختلف لوگوں کی موجودگی اور ان کا نقطہ نظر پر امن طریقے سے سامنے آئے۔ بنیادی طور پر اس کا مقصد مختلف لوگوں کے درمیان راہ ہموار کرنا ہے تاکہ وہ اپنا مدعا بنا جھجکے بیان کر سکیں۔ حل طلب پیچیدہ مسائل حل ہوسکیں، ایک دوسرے کی ترجیحات اور ضروریات کو سمجھا جا سکے۔
اس تیز رفتار ترقی کے دور کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ علم کا فہم بہت کم ہے جبکہ برقی رابطوں اور پلیٹ فارمز کی وجہ سے ہر قسم کی معلومات بے بہا ہیں۔ ہر کوئی اپنی مرضی کی چیز پڑھ رہا ہے، لکھ رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر کوئی خود کو درست اور دوسروں کو غلط سمجھ رہا ہے اور اپنی بات پر اڑا ہے کہ اسے ہی درست سمجھاجائے۔ ایسے میں تنازعات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مکالمہ کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اس کے بنیادی اصول اپنائے جائیں۔ مکالمے کو بحث پر یہ سبقت حاصل ہےکہ دوسرے کی رائے کو بھی اہمیت دی جاتی ہے، جس سے حل طلب مسائل حتمی حل کی جانب جاتے ہیں، جبکہ موجودہ دور میں، جو بحث کا انداز عام ہو رہا ہے، وہ مسائل کے حل کی جانب تو نہیں لے کے جاتا بلکہ اس سے تنازعات میں شدت آ جاتی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک دوسرے کی بات تحمل سے سنی جائے اور برداشت کی جائے۔ مکالمے کے الفاظ کسی کی سمع خراشی کا سبب نہ بنیں بلکہ بات بہترین طریقے سے پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔
بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے اسکول کے طلبا کو ایک دوسرے سے مکالمہ کرنا سکھایا جانا چاہیے کیونکہ یہی طلبا کل میدان عمل میں آئیں گے اور اگر ان کو مکالمے سے مسائل حل کرنے کی تربیت ملی ہو گی تو متشدد معاشرے کی جانب جانے سے بچ جائیں گے۔ اس کے علاوہ ہم جتنے بھی رشتوں سے جڑے ہیں، ان سب کی باتیں دل میں رکھنے کی بجائے ان سے بات کر کے یعنی مکالمے کے ذریعے ان رنجشوں کو حل کر لینا چاہیے۔
ہمارے ہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی سے رنجش ہے تو دو یا تین افراد، جو ہم خیال ہوتے ہیں، مخاطب پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اس کو نہ بات کرنے کا موقع دیتے ہیں اور نہ ہی مکالمے کی جانب جاتے ہیں۔ نتیجہ وہی کہ تنازعات بڑھتے ہیں اور بہت سی کہنے والی باتیں ان کہی رہ جاتی ہیں۔ مکالمے کو اس کی نرمی کو زندگی میں شامل کریں تاکہ زندگی پر سکون ہو۔
مکالمہ کیسے کیا جائے؟
عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ مکالمے صرف فلموں اور ڈراموں میں ہی اچھے لگتے ہیں مگر ان کا حقیقی زندگی میں بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ ہماری عمومی گفتگو بھی ہمارے اظہار خیال کے لیے بہترین ہوتی ہے مگر یہی مکالمے اگر جذبات سے بھرپور ہوں تو ہمارے احساسات کو مؤثر انداز میں بیان کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
لیکن حقیقی زندگی میں مکالمے کے فقرے مختصر اور پر تاثیر ہوتے ہیں، اس لیے سامع پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ حقیقی زندگی میں مکالمے یا ڈائیلاگ کو بھی حقیقی ہونا چاہیے مثلاً محبت کے اظہار کے لیے دودھ کی نہریں کھود دینے کا دعویٰ کرنا قطعی غیر حقیقی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو مکالمے کی مختلف اقسام ہیں اور ہر قسم اپنے مقام وقت اور حالات کے مطابق ہوتی ہے۔ کچھ مکالمے کسی کا عزم و ہمت بڑھانے کے لیے بولے جاتے ہیں جبکہ کچھ مکالمے کسی کے ہمت و حوصلے کی عکاسی کرتے ہیں۔ کچھ مکالمے مد مقابل کو یہ بتا نے کے لیے ہوتے ہیں کہ اس کے مقابلے میں ہم ابھی بھی ڈٹ کر کھڑے ہیں، وہیں کچھ مکالمے کسی کے مضبوط ارادوں کو ڈانواں ڈول کرنے کے کام بھی آتے ہیں۔
مکالمے منفی اور مثبت پہلو دونوں رکھتے ہیں۔ ان سے آپ کسی کے گرتے حوصلے کو سنبھال بھی سکتے ہیں اور ان میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں اور اسی سے آپ کسی کے بھی دل میں اپنے خلاف غصہ، اشتعال اور نفرت پیدا کر سکتے ہیں۔ چونکہ اچھائی اور برائی ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ اس لیے مکالمے کے لیے مناسب انداز اپنانا چاہیے اور الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے کیونکہ حساس اور نازک مزاج لوگ الفاظ کا با آسانی شکار ہو جاتے ہیں۔
اچھے مکالمے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں، جو ہمیں بات کرتے وقت ملحوظ خاطر رکھنے چاہیے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ جس سے ہم بات کر رہے ہوں یا جس تک ہم نے اپنا مدعا پہنچانا ہو، اس کے مقام اور مرتبے کا خیال کرتے ہوئے بات کی جائے۔ زیادہ تر مکالمے اس لیے منفی جانب چلے جاتے ہیں کہ ہم مخاطب کو اس کا جائز رتبہ دینے سے انکاری ہوتے ہیں یا مناسب الفاظ کا انتخاب نہیں کرتے۔
اور یہی الفاظ کا انتخاب دوسرا اہم پہلو ہے، جو مکالمے کے دوران مدنظر رکھنا چاہیے۔ مکالمے کی زبان شستہ، شگفتہ اور واضح ہونی چاہیے۔ تہذیب اور اخلاق سے گرا ہوا کوئی لفظ نہیں بولا جانا چاہیے جبکہ ایک ہی بات بار بار دہرانا جھگڑے کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے، اس سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔
اگر آپ کسی کو اپنی کسی بات کے لیے قائل کرنا چاہ رہے ہیں تو بات مدلل اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کریں تاکہ اس میں تاثیر پیدا ہو اور سننے والا نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کی پوری بات سنے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔