اب قلمی نام بھی تبدیل: اردو کے معروف شاعر اکبر الہ آبادی اکبر پریاگ راجی ہو گئے
یو پی کی ہائر ایجوکیشن سروسز کمیشن کی ویب سائٹ پر الہ آباد کے کئی معروف شعرا کے تخلص کے ساتھ الہ آبادی کے بجائے پریاگ راجی کر دیا گيا۔ یوگی حکومت نے الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر دیا تھا۔
بھارتی ریاست اتر پردیش میں اعلیٰ تعلیم سے متعلق ایک نیم سرکاری ادارے ’ہائر ایجوکیشن سروسز کمیشن‘ کی ویب سائٹ پر، بر صغیر کے معروف اردو شاعر اکبر الہ آبادی کا نام تبدیل کر کے اکبر پریاگ راجی کر دیا گیا۔ بی جے پی کی حکومت نے سن 2018 میں تاریخی شہر الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر دیا تھا۔
نئی تبدیلی کیا ہے؟
اس شہر کے معروف اردو شعرا اور ادباء کے القاب و تخلص میں یہ تبدیلی پہلی بار 28 دسمبر منگل کے روز نوٹ کی گئی۔ بیشتر ناموں کی تبدیلی الہ آباد سیکشن میں کی گئی ہے اور شاعر سید اکبر حسین، جن کا لقب اکبر الہ آبادی تھا، کو اکبر پریاگ راجی کر دیا گیا۔
اس نیم خود مختار ادارے کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ہندی ادب کے علاوہ، ’’اس شہر میں فارسی اور اردو ادب کے بارے میں مطالعہ ہونے کے ساتھ تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ جدید اردو شعراء میں اکبر پریاگ راجی ایک معروف شخصیت ہیں۔‘‘
لیکن ویب سائٹ پر ناموں یا القاب کی یہ تبدیلی صرف اکبر کے ساتھ ہی نہیں کی گئی بلکہ شہر کے ان تمام معروف اردو شعرا کا لقب پریاگ راجی کر دیا گيا، جنہوں نے الہ آبادی تخلص اختیار کیا تھا۔ اس میں راشد الہ آبادی اور تیغ الہ آبادی کا نام بھی شامل ہے۔
ادارے کا رد عمل
بھارت کے بعض میڈیا اداروں نے گزشتہ روز جب حکومتی عہدیداروں سے اس بارے میں استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس کی تفصیلات نہیں معلوم ہیں۔ تاہم بدھ کے روز ادارے کے ایک سینیئر افسر نے کہا کہ ممکنہ طور پر ان کی ویب سائٹ ہیک کی گئی اور اس کے بعد یہ تبدیلی کی گئی ہے۔
یو پی ہائر ایجوکیشن سروسز کمیشن کے چیئرمین ایشوؤر چرن وشواراما نے بھارتی خبر رساں اداروں سے بات چیت میں کہا کہ اس حوالے سے سائبر سیل میں ایک شکایت درج کرائی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندی زبان کی ویب سائٹ کو درست کر لیا گيا ہے اور انگریزی کی ویب سائٹ پر کام جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیشن نے ان شعراء کے القاب کی تبدیلی یا پھر ویب سائٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ دانستہ طور پر نہیں کی ہے اور شاید یہ اس شخص کا کام ہے جو، ’’الہ آباد کا نام تبدیل کر کے پریاگ راچ کرنے پر زیادہ ناراض ہے۔‘‘
عوامی رد عمل
ادارے کی وضاحت سے قبل تک بہت سے اردو شائقین، مورخین اور دانشوروں نے اس تبدیلی پر سخت ناراضی ظاہر کی۔ ایک ٹویٹر صارف انکیتا نے اپنی پوسٹ میں لکھا، ’’بیک وقت، میرا ہنسنے اور رونے کا من کر رہا ہے۔ یہ حماقت کی بلندی ہے۔‘‘
ایک دیگر صارف دھنک نے لکھا کہ کس طرح یہ حکومت تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک اور صارف آؤٹ آف کونٹیکسٹ نے لکھا، ’’پوچھا ’اکبر‘ ہے آدمی کیسا، ہنس کے بولے، وہ آدمی ہی نہیں۔‘‘
الہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر ہے رامب چترویدی نے اس حوالے سے کہا، ''یہ عمل خالی پن اور کم ظرفی کو ظاہر کرتا ہے۔ احمقوں کو معاف کر دینا چاہیے۔‘‘ پروفیسر کا کہنا تھا کہ معروف شعراء کے قلمی ناموں کو تبدیل کرنا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ''حکام تاریخ کے بارے میں کم فہم ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔