کراچی کے صنعتی علاقے میں اٹھارہ افراد کی موت کا پُر اسرار سانحہ
پاکستان کے جنوبی شہر کراچی کے ایک صنعتی علاقے میں 18 افراد کی ُپر اسرار موت کے بعد حکام اس بارے میں چھان بین کر رہے ہیں کہ آیا ان اموات کی وجہ ایک فیکٹری میں زہریلے کیمیکلز کا اخراج تو نہیں ہے۔
پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے بندرگاہی شہر کراچی کے رہائشی علاقے میں ہونے والے اس واقعے میں ایک درجن سے زائد انسانی جانوں کے ضیاع پر مختلف حلقوں کی طرف سے گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی حکام نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ مبینہ طور پر زہریلے کیمیکلز کے اخراج سے واقع ہونے والی اموات کے اس پراسرار واقعے کی چھان بین جاری ہے۔
دریں اثنا صوبہ سندھ کی محکمہ صحت سے وابستہ ایک خاتون ترجمان مہر خورشید نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ اس علاقے میں قائم فیکٹریوں میں کچھ ایسے زہریلے کیمیکلز استعمال کیے جا رہے تھے، جن کا اخراج پھپھڑوں کی مُضر بیماری کا سبب بنے اور اس کے نتیجے میں کم از کم 18 افراد موت کے مُنہ میں چلے گئے۔
مقامی ذرائع کے مطابق کراچی کے اس صنعتی علاقے کے رہائشیوں کی طرف سے ارد گرد کے علاقے میں سخت بدبو پھیلنے کی شکایات درج کرانے کے بعد تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ اس علاقے میں کم از کم چار فیکٹریوں میں کام کرنے والوں اورآس پاس کے علاقوں کے رہائشیوں کو سانس لینے میں سخت مسائل اور کیمیکلز کی بدبو کم از کم چار فیکٹریوں کے نزدیکی علاقے سے آ رہی تھی۔
تمام متاثرین، جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں، میں بخار، گلے میں خراش اور سانس لینے کے لیے آکسیجن کی کمی جیسی علامات ظاہر ہونے کے بعد چند روز کے اندر اندر دم توڑ گئے۔ اس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے تحقیقات جلد از جلد مکمل کر لیے جانے اور فیکٹریوں کو اس وقت تک بند رکھنے کے احکامات جاری کردیے، جب تک کہ تفتیشی کارروائی مکمل نہیں ہو جاتی۔
صنعتی خطرات سے ہونے والی اموات، جیسے فیکٹریمیں آگ لگنا، گیس کا اخراج، پاکستان میں عمارتوں کا گرنا اور بارودی سرنگوں میں پھنس جانا عام یا روز مرہ کی بات ہے اور زیادہ تر معاملات میں آفات کے پیچھے مجرموں کو سزا نہیں دی جاتی۔ اس کی بنیادی وجہ استغاثہ اور انصاف کا شکستہ، ناقص نظام ہے۔
دریں اثناء پاکستان کے نیشنل فورم فار انوائرمنٹ نے کراچی شہر کی انتظامیہ اور تحفظ ماحول کے ادارے سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے قوانین کو سختی سے نافذ کروائے۔
کراچی کے علاقہ کیماڑی کے رہائشی اس علاقے میں قائم فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے کیمیکلز اور دیگر ماحولیاتی آلودگی کا ایک عرصے سے شکار ہیں۔ اس علاقے میں آئے دن ماحولیاتی آلودگی کے سبب انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بننے والے سانحے رونما ہوتے رہتے ہیں تاہم حکام اور متعلقہ اداروں کی طرف سے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثر اقدامات نہیں کیے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر صحت عبدالقادر پٹیل صوبہ سندھ کے شہر کراچی کے اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے نیشنل فورم فار انوائرمنٹ نے کہا ہے کہ اس حالیہ سانحے کے پس منظر میں تمام ضروری اصلاحاتی اقدامات کیے جانے چاہییں۔ ساتھ ہی مختلف فیکٹریوں کے مالکان کو اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہییں اور حکام کو اس سلسلے میں غفلت برتنے والوں کے خلاف اپنی قانونی گرفت مضبوط کرنا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔