تریپورا میں مساجد پر حملے، حکومت کا تحفظ فراہم کرنے کا اعلان
بنگلہ دیش میں قرآن کی مبینہ توہین کی خبروں کے بعد بعض مندروں پر حملے ہوئے تھے۔ بھارت میں شدت پسند ہندو تنظیموں نے اس کے خلاف تریپورا میں کئی روز تک مظاہرے کیے۔ متعدد مساجد پر حملوں کی اطلاعات ہیں۔
بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحق بھارت کی شمال مشرقی ریاست تریپورا میں گزشتہ چند دنوں کے دوران ہندو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے مساجد اور مسلمانوں کے املاک کو نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ریاست کی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت نے تاہم دعوی کیا ہے کہ تشدد کے چھوٹے موٹے واقعات کو چھوڑ کر قانون کی خلاف ورزی کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔
تریپورا کے ایک سینیئر پولیس افسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حالات اب پرسکون ہیں اور ریاست میں تقریباً 150 مساجد کو سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے ایک مسجد کے قریب توڑ پھوڑ کی تصدیق کی اور کہا کہ اس واقعے کی تفتیش کی جا رہی ہے، کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور سی سی ٹی وی فوٹیج سے شناخت کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
معاملہ کیا تھا؟
بنگلہ دیش میں بعض مندروں اور درگا پوجا کے پنڈالوں میں توڑ پھوڑ کے خلاف ہندو شدت پسند تنظیم ہندو جاگرن منچ اور وشو ہندو پریشد نے سرحدی ریاست تریپورا میں مظاہرے کا اعلان کیا تھا۔حالانکہ انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس کے باوجود دس ہزار سے زائد مظاہرین اس میں شامل ہو گئے۔وہ بعض مسلم علاقوں سے گزرنا چاہتے تھے لیکن پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی، جس سے مظاہرین مشتعل ہو گئے اور پتھراؤ کر دیا۔ پولیس نے بھی جوابی کارروائی کی جس میں کئی افراد زخمی ہو گئے۔
اس دوران ایک مورتی کو توڑنے کی افواہیں پھیل گئیں حالانکہ پولیس نے بعد میں اس کی تردید کی۔ تاہم اس دوران کئی مساجد پر حملے کیے گئے اور ان میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
تریپورا سے شائع ہونے والے اخبار براک بلیٹن کے صحافی انربان رائے چودھری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”تریپورا میں گزشتہ تین چار دنوں سے صورت حال کافی کشیدہ تھی حالانکہ اب کشیدگی میں کچھ کمی آئی ہے۔ کیونکہ پولیس نے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔"
مسلمانوں کی ایک ملک گیر تنظیم جمعیت علماء ہند کا کہنا ہے کہ تریپورہ میں 12 مساجد پر حملے ہوئے، چند مساجد پر بھگوا جھنڈے بھی نصب کر دیے گئے جب کہ بعض مساجد میں آگ لگانے کو کشش کی گئی۔ بی جے پی کے ریاستی ترجمان نوویندو بھٹاچاریہ کا کہنا تھا کہ بی جے پی ایسے واقعات کی حمایت نہیں کرتی۔
کارروائی کا مطالبہ
مسلم تنظیموں نے تریپورا میں مسلمانوں اور مساجد کی حفاظت کا مطالبہ کرتے ہوئے شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”اقلیتوں کو تحفظ دینا، ان کے عبادت خانوں اور گھروں کی حفاظت کرنا منتخب سرکار کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے، جس میں بی جے پی سرکار شروع سے ناکام ہے۔"
ڈاکٹر منظور عالم نے کہا کہ پچھلے کئی دنوں سے تریپورہ میں مسلمانوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی تک اس معاملے میں ریاستی اور مرکزی سرکار کی طرف سے کوئی خاص کارروائی ہوتی نظر نہیں آئی ہے،''سرکار اپنی ذمہ داری ادا کرے، ملک کے ماحول کو پرامن بنائے اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے اور ان پر ہونے والے لگاتار حملوں کو روکے اور جو لوگ اس طرح کے حملوں میں ملوث ہیں انہیں سخت سزا دی جائے۔"
جماعت جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے تریپورہ کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریاست کے وزیر اعلیٰ بپلاب کمار دیب کو خط لکھ کر قصورواروں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
'یہ سب سیاسی کھیل ہے'
ڈی ڈبلیو بنگلہ سروس سے وابستہ اور شمال مشرقی ریاستوں پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی سمانتک گھوش کا کہنا ہے کہ تریپورا میں ہندو مسلم کشیدگی کی کوئی روایت نہیں ہے۔ دونوں فرقے اور قبائلی ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ وہاں اب تک فرقہ وارانہ فساد کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔
سمانتک گھوش کا کہنا تھا کہ آئندہ 25 نومبر کو ریاست میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں اور اگلے برس اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ ایسے میں چونکہ حکمراں بی جے پی کے پاس عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کو پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اس لیے وہ ہندو مسلم کو لڑانے کے اپنے آزمودہ فارمولے کو اپنا رہی ہے۔
سمانتک گھوش کہتے ہیں کہ بائیں بازو کی جماعت، تریپورا میں 25 برس تک اقتدار پر رہی۔گزشتہ اسمبلی الیکشن میں اسے عوامی ناراضگی کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور چونکہ اس وقت مرکز میں بی جے پی کی حکومت تھی اس لیے ووٹروں نے اسے ریاست میں بھی اقتدار سونپے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پچھلے چار برس سے زیادہ عرصے کے دوران بی جے پی حکومت نے کوئی اہم کام نہیں کیا۔اس لیے عوام اس سے خوش نہیں ہیں۔ ایسے میں وزیر اعلی وپلاب دیب کو ہندو ووٹروں کی صف بندی ہی کامیابی کا واحد راستہ دکھائی دے رہا ہے۔”وپلاب دیب یوں بھی اپنے مسلم مخالف بیانات کے لیے کافی مشہور ہیں۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔