اللہ رے! چاند رات کی رونقیں

یہ تو عید کی چاند رات کی پہلی منزل ہے، یعنی یہ طے ہونے کی بے چینی کہ آیا عید کل ہے کہ نہیں وہ چاند کی رویت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن چاند کی رویت کے ساتھ چاند رات کی رونق شروع ہوتی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

اللہ رے چاند رات کی رونقیں! یوں تو چاند رات ہر اسلامی ماہ میں آتی ہے۔ لیکن عید کی چاند رات کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ اس کا انتطار رمضان کی 28 تاریخ سے شروع ہو جاتا ہے۔ کسی مسجد میں جاؤ یا آس پڑوس میں کہیں جاؤ اور تو اور گھروں میں بھی 28 رمضان سے بس یہ چرچہ شروع ہوجاتا ہے کہ اس بار عید کا چاند 29 کا ہوگا یا 30 کا۔ کیونکہ عید کا ہونا یا نہ ہونا اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ چاند کب دیکھ رہا ہے اور بس جس رات کو چاند دیکھا وہی چاند رات۔ لیکن اس کا انتظار اللہ اللہ۔ کوئی روزہ داروں سے پوچھے کہ کس بے چینی سے اس چاند رات کا انتطار ہوتا ہے۔ تقریباً 28-29 دن کے روزوں کی عبادت، نماز، تراویح اور تلاوت قرآن کے بعد ہر روزہ دار تک کو بس چاند رات کا انتظار ہوتا ہے۔

صاحب، مغرب کا وقت آنے سے کوئی آدھا گھنٹے پہلے ہی بچے گھروں میں کوٹھوں پر یا اونچی-اونچی چھتوں پر چڑھے آسمان تکنا شروع کر دیتے ہیں۔ شہر کی جامع مسجد کا تو حال مت پوچھیے۔ لوگوں سے کھچا کھچ بھری مسجد میں ہر کسی کو اس روز نماز کی فکر کم اور چاند کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔ ہر نگاہ آسمان تکتی نظر آتی ہے۔ خود امام صاحب اور ان کے حالی موالی آسمان پر ٹکٹکی باندھے چاند تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں اکثر کچھ بچے شرارت کر دیتے ہیں۔ وہ رہا چاند، وہ رہا۔ بس ہر طرف سے لوگ پوچھتے ہیں، ارے کہاں بھائی کہاں، اور پتہ چلتا ہے ابھی چاند نہیں دیکھائی پڑا۔


اسی نا امیدی اور کسما پرسی کے عالم میں کہیں باریک چاند آسمان پر دیکھ گیا تو بس خوشی کا عالم نہ پوچھیے۔ لوگ خاص طور پر امام صاحب کو چاند دیکھاتے ہیں۔ وہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ امام صاحب باقاعدہ چاند کی رویت کا اعلان کریں، مسجد اور آس پاس پٹاخے پھوٹ اٹھتے ہیں اور بس صاحب شہر-شہر، گاؤں-گاؤں شور مچ جاتا ہے۔ ہوگیا چاند، ہوگیا چاند، عید کل صبح کی ہے اور منٹوں میں چاند مبارک کا شور مچ جاتا ہے۔

یہ تو عید کی چاند رات کی پہلی منزل ہے۔ یعنی یہ طے ہونے کی بے چینی کہ آیا عید کل ہے کہ نہیں وہ چاند کی رویت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن بس چاند کی رویت کے ساتھ چاند رات کی اصل رونق شروع ہوتی ہے۔ گھروں میں عورت، مرد اور بچے سب کے چہرے کھل اٹھتے ہیں۔ گھر کے بڑے بوڑھے دوسرے روز عید کی خاطر توازو کے انتظام کا جائزہ شروع کردیتے ہیں۔ گھر کی صفائی ، ستھرائی شروع، بستروں پر قاعدے سے چادریں بچھانا شروع، سیوئیں اور دوسرے لوازمات کا انتظام مکمل ہوا کہ نہیں، ان تمام چیزوں کا جائزہ اور بحث و مباحثہ شروع ہوجاتا ہے۔


عورتیں خاص طور پر مصروف نظر آتی ہیں، بچے نئے کپڑوں لتوں کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ ارے میرا جوتا تو ابھی تک آیا ہی نہیں، ننھے میاں ماں سے شکایت کرتے ہیں۔ ادھر ماں بیٹے کے باپ سے شکایتاً کہتیں ہیں آپ نے عید کے لئے دنیا کا سامان خریدا، بچے کا جوتا لینا بھول گئے۔ ابھی بیٹے کو لے کر جائیں اس کو جوتا دلوا کر آئیے۔ لیکن صاحب، بازار کا عالم، چاند رات کے روز نہ پوچھیے۔ دوکانوں پر جیسے لوٹ مچی ہو۔ سڑکوں پر کاندھے سے کاندھا چھل رہا ہے کوئی سیوئیاں خرید رہا ہے تو کسی کو درزی کی دوکان سے نئے کپڑے اٹھانے کی فراق ہے تو عورتوں کو مہمان نوازی کے لئے برتن چاہیے، کسی کو عطر کی تلاش تو کوئی کچھ نہیں تو نئے رومال کے فراق میں ہے، الغرض جس کو دیکھو وہ کچھ نا کچھ خریدنے کی جلدی میں بازار کو دوڑا بھاگا جاتا ہے۔

ارے صاحب اسی گہما گہمی میں یہ چاند رات کیسے کٹ جاتی ہے، پتہ ہی نہیں چلتا، جس رات کا کم از کم دو دن پہلے سے انتظار ہوتا ہے وہ رات جب آتی ہے تو اتنی چھوٹی لگتی ہے کہ بس پوچھو مت۔ عید کے انتطار میں کب چاند رات ڈھلی اور کب فجر کی اذان ہوگئی پتہ ہی نہیں چلا اور پھر اب کس کو کسی بات کی فکر نہیں کیونکہ آخر جس عید کے لئے چاند رات کی گہما گہمی تھی جب اسی کا وقت آگیا تو پھر اب کاہے کا چاند اور کیسی چاند رات۔


مگر اس چاند رات کے انتطار میں اور اس رات کی رونقوں کا جو لطف ہوتا ہے وہ غالباً کسی اور رات کا ہوتا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 04 Jun 2019, 9:10 PM