اعزازی سفارت کار اور سفارتی حیثیت کا غلط استعمال: نئی تحقیق کے حیران کن نتائج
ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ اعزازی سفارت کار مقرر کیے گئے افراد کیسے کیسے ممکنہ خطرات کی وجہ بنتے ہیں۔ ایسے غیر پیشہ ور سفارت کار رضا کار ہوتے ہیں اور ان سے متعلق قوانین بہت مبہم ہیں۔
جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو اور اس کے پارٹنر اداروں کی طرف سے مشترکہ طور پر کئی گئی چھان بین سے انکشاف ہوا ہے کہ اعزازی قونصل جنرل تعینات کیے گئے سفارت کار بین الاقوامی سفارت کاری کے ایسے کردار ہوتے ہیں، جن سے متعلق آج تک سب سے کم قانون سازی کی گئی ہے۔ کئی واقعات میں تو اس حیثیت کو مجرمانہ پس منظر کے حامل افراد حتیٰ کہ دہشت گرد بھی اپنے فائدے اور تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اعزازی قونصل کن حالات میں کام کرتے ہیں؟
ایسے رضار کار سفارت کار یا اعزازی قونصل قانونی طور پر ایک غیر شفاف صورت حال میں رہتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ انہیں دنیا بھر میں جزوی طور پر سفارتی مامونیت تو حاصل رہتی ہے مگر ان کی مصروفیات کی نگرانی کا کوئی نظام تقریباﹰ ہوتا ہی نہیں۔ اسی لیے ایسی کوئی حیثیت یوں بھی استعمال کی جاتی ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کے لیے خطرہ بھی بن سکتی ہے۔
'شیڈو ڈپلومیٹس انویسٹی گیشن‘ نامی اس چھان بین میں ڈی ڈبلیو کے علاوہ کئی دیگر میڈیا اداروں نے بھی حصہ لیا۔ اس چھان بین سے پتہ یہ چلا کہ اعزازی قونصل بنائے گئے افراد کی مانیٹرنگ کا نظام بہت ہی ناقص ہے اور اس حیثیت کو ایسے افراد بکثرت استعمال کرتے ہیں، جو اس راستے سے خود کو امیر بنانا چاہتے ہیں، کسی نہ کسی سیاسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے ہیں یا پھر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نفاذِ قانون سے بچنا چاہتے ہیں۔
ترکی کی مثال
ڈی ڈبلیو کے ترک زبان کے شعبے نے اپنے طور پر ایک ایسا ڈیٹا بینک تیار کیا ہے، جو ان مقامی افراد سے متعلق ہے، جو ترکی میں رہتے ہیں اور اعزازی قونصل کے سفارتی حیثیت کے حامل ہیں۔ اس فہرست میں مجموعی طور پر 328 افراد شامل ہیں اور ان میں سے 22 سیاستدان ہیں۔ ایسے بائیس ترک سیاست دانوں میں سے 14 کا تعلق ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی سیاسی پارٹی سے ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سوا تین سو سے زائد ترک شخصیات میں سے کم از کم 50 ایسی ہیں، جو مختلف طرح کے اسکینڈلوں میں ملوث رہی ہیں۔
ایسے افراد کے خلاف لگائے جانے والے الزامات میں منشیات کی اسمگلنگ سے لے کر نام نہاد برآمدات، جعلسازی سے بھرے جانے والے ٹینڈر اور غیر قانونی جوئے میں ملوث ہونے کے الزامات بھی شامل ہیں۔ مزید یہ کہ ایسی شخصیات کے خلاف مختلف عدالتوں میں مقدمات بھی چلے، لیکن کسی کو بھی کوئی حتمی سزا نہ سنائی گئی۔
ایسے اسکینڈل صرف ترکی ہی میں نہیں ہوتے
اعزازی سفارت کاروں کا مختلف طرح کے اسکینڈلوں میں ملوث ہونا صرف ترکی ہی میں دیکھنے میں نہیں آتا۔ 'شیڈو ڈپلومیٹس انویسٹی گیشن‘ کے نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اعزازی سفارت کار ہونا بین الاقوامی سفارت کاری کا طویل عرصے سے نظر انداز کیا جانے والا ایسا پہلو ہے، جسے ہتھیاروں کے تاجر، قاتل، جنسی جرائم کے مرتکب افراد، حتیٰ کہ جعلساز اور دھوکے باز بھی دنیا بھر میں اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں۔
چند پہلو تو ایسے بھی سامنے آئے کہ اسی عدم نگرانی سے فائدہ اٹھانے والوں میں دہشت گرد بھی شامل تھے۔ اس بہت جامع تحقیق سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ اعزازی قونصل سسٹم کا مقصد بنیادی طور پر تو یہ تھا کہ اس کے ذریعے مختلف معاشروں میں بہت باوقار شہریوں کی فراخ دلی کو سفارت کاری کے لیے استعمال کیا جائے، لیکن اب یہی نظام بظاہر ایک ایسا ڈھانچہ بنتا جا رہا ہے، جو دنیا بھر میں قانون کی حکمرانی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔
گھر سے دور رہتے ہوئے اعزازی سفارت کاری
دنیا بھر میں اس وقت مختلف ممالک میں کُل کتنے اعزازی قونصل کام کر رہے ہیں، اس بارے میں اعداد و شمار قطعی غیر واضح ہیں۔ پھر بھی اندازہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ ان اعزازی سفارت کاروں میں سے ایک اونگ موئے میئنٹ بھی ہیں، جو میانمار میں بیلاروس کے اعزازی قونصل ہیں۔ ان کی کمپنی نے میانمار میں حکمران اور گزشتہ برس سے ملک پر خونریز طریقے سے حکومت کرنے والی ملکی فوج کی میزائل اور طیارے خریدنے میں مدد کی تھی۔
اسی طرح ایک اور مثال لادسلاو اوتاکار سکاکال کی ہے، جو مصر میں اٹلی کے ایک سابقہ اعزازی سفارت کار ہیں۔ انہوں نے مصر میں زمانہ قدیم کی حنوط شدہ لاشوں کے پانچ ماسک، 21 ہزار سے زائد تاریخی سکے اور لکڑی کا ایک قدیم تابوت تک مصر سے باہر اسمگل کرنے کی کوشش کی تھی۔
یہ سب تاریخی اشیاء ایک ایسے سفارتی کنٹینر میں بند تھیں، جس پر سکاکال کا نام اور ان کا سابقہ سفارتی عہدہ بھی لکھا ہوا تھا۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق یہ تمام نوادرات مصر سے اطالوی شہر سالیرنو بھیجے گئے تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ دستاویزی تفصیلات میں ایک غلطی کی وجہ سے اطالوی حکام نے جب اس کنٹینر کی تلاشی لی، تو اس میں سے وہ سب کچھ برآمد ہوا، جو اس میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔
بعد ازاں سکاکال کو قاہرہ کی ایک عدالت نے 15 سال قید کی سزا بھی سنا دی تھی، مگر ان کی غیر حاضری میں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ سکاکال اب بھی اٹلی میں ہیں۔ لیکن اگر اطالوی حکام نے ان کے خلاف کسی قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا بھی، تو دونوں ممالک کے مابین مطلوب افراد کی ملک بدری کا کوئی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے سکاکال کو اٹلی سے واپس مصر نہیں بھیجا جا سکے گا۔
پانچ سو واقعات میں غیر قانونی اقدامات یا اسکینڈل
ڈی ڈبلیو اور اس کے پارٹنر میڈیا اداروں نے 'شیڈو ڈپلومیٹس انویسٹی گیشن‘ کے دوران کم از کم بھی 500 ایسے واقعات کا دستاویزی ریکارڈ جمع کیا، جن میں کوئی نہ کوئی اعزازی قونصل کسی نہ کسی اسکینڈل یا غیر قانونی کارروائی میں ملوث تھا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ اعزازی قونصل ہوتا کون ہے؟ ایسے اعزازی سفارت کار اپنے اپنے ممالک میں دوسرے ملکوں کی حکومتوں کے لیے کام کرتے ہیں، اکثر ایسے خطوں میں جہاں متعلقہ ملک کا سفارت خانہ یا کوئی قونصل خانہ نہیں ہوتے۔ ان کا کام ان ممالک کے مفادات کی ترویج ہوتا ہے، جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔
ایسی شخصیات محدود سطح پر قونصلر کارکردگی کا مظاہرہ بھی کرتی ہیں، مگر اس کے لیے انہیں کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔ یہ بات تاہم اپنی جگہ درست ہے کہ اعزازی قونصل ہونے سے ایسے افراد کے لیے سفارت کاری اور سفارت کاروں کی ایک پوری نئی دنیا کھل جاتی ہے۔
پرکشش فوائد اور اعزازی مراعات
مخصوص حالات میں ایسے سفارت کاروں کو وہی مراعات ملتی ہیں، جو پیشہ ور سفارت کاروں کا حق ہوتی ہیں۔ قونصلر ریلیشنز کا احاطہ کرنے والے ویانا کنوینشن کے مطابق اعزازی سفارت کاروں کو ہر معاملے میں تو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا تاہم ان کے بطور قونصلر کیے گئے اقدامات کے سلسلے میں انہیں مکمل مامونیت حاصل رہتی ہے۔
ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اعزازی قونصل جب سفر کرتے ہیں اور اپنے سامان یا پورے کے پورے کنٹینر کو اگر سفارتی سامان ظاہر کر دیں، تو کسی بھی ملک کے کسٹمز حکام کے لیے اس کی تلاشی بہت ہی مشکل ہو جاتی ہے۔
'شیڈو ڈپلومیٹس انویسٹی گیشن‘ کے نتائج سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ اعزازی سفارتی عہدوں کے حامل افراد کو مراعات تو بہت سی حاصل ہوتی ہیں مگر ان کی مصروفیات کی نگرانی بہت ہی کم حد تک کی جاتی ہے یا ممکن ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اعزازی قونصل مقرر کرنے کی روایت کا مقصد تو تعمیری اور مثبت ہی تھا مگر اس اعزاز کا آسانی سے غلط استعمال بھی ممکن ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کئی واقعات میں دہشت گرد اپنے لیے اعزازی قونصل کی حیثیت کے خواہش مند بھی ہوئے اور انہیں یہ اعزاز مل بھی گئے۔ ایسے سفارتی عہدوں کی مانگ عالمی سطح پر اتنی بڑھ چکی ہے کہ کئی چھوٹے اور غریب ممالک تو چند ہزار ڈالر کے عوض یہ اعزاز فروخت کرنے کا بھی سوچنے لگتے ہیں۔
اس مفصل اور بہت طویل چھان بین کا حتمی نتیجہ یہ کہ اعزازی قونصل ہونا ایک اعزاز ہوتا ہے مگر اس کے غلط استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث یہی اعزاز مستقبل میں ایک بڑی ذمے داری اور مسئلہ بھی بن سکتا ہے۔
اس تحقیقی منصوبے کے لیے ڈی ڈبلیو کے شعبہ ترکی کے صحافتی ارکان نے 46 ممالک کے قریب 160 تحقیقی صحافیوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اس ریسرچ کا آغاز انویسٹی گیٹیو صحافیوں کے انٹرنیشنل کنسورشیم نے ایک غیر حکومتی امریکی تنظیم 'پرو پبلیکا‘ کے ساتھ مل کر کیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔