میانمار کی فوج نے آنگ سان سوچی کی پارٹی تحلیل کر دی
میانمار میں فوجی حکومت کے زیر اثر انتخابی کمیشن نے معزول جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کی پارٹی کو تحلیل کر دیا ہے۔ فوجی جنتا الیکشن کرانا چاہتی ہے، سوچی کی پارٹی نے اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
میانمار کے سرکاری میڈیا نے منگل کے روز شام کے اپنے بلٹین میں خبر دی کہ فوج کے زیر کنٹرول الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ چونکہ معزول رہنماآنگ سان سوچی کی پارٹی 'نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی' (این ایل ڈی) نئے انتخابی قانون کے تحت دوبارہ رجسٹر کرانے میں ناکام رہی ہے، اس لیے اسے تحلیل کر دیا گیا ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق این ایل ڈی ان 40 سیاسی جماعتوں میں شامل ہے، جو حکمران فوج کے زیر قیادت ہونے والے الیکشن کے لیے رجسٹر کرانے میں ناکام رہی، اس لیے انہیں تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ رواں برس جنوری میں فوج نے نئے انتخابات سے قبل ایک سخت نئے انتخابی قانون کے تحت سیاسی جماعتوں کو دوبارہ رجسٹر کرنے کو کہا تھا اور اس کے لیے دوماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ تاہم فوج کی مخالف جمہوری پارٹیوں کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات نہ تو آزاد اور نہ ہی منصفانہ ہوں گے۔
ریاستی نشریاتی ادارے ایم آر ٹی وی کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ 90 پارٹیوں میں سے صرف 50 نے نئے قوانین کے تحت دوبارہ رجسٹریشن کے لیے درخواست دی تھی۔ باقی تمام سیاسی جماعتیں 29 مارچ بدھ کے روز سے تحلیل ہو جائیں گی۔
جنتا کی انتخاب کرانے کی کوشش
این ایل ڈی نے کہا تھا کہ وہ فوج کی قیادت میں ہونے والے اس طرح کے غیر قانونی الیکشن میں شامل نہیں ہو گی۔ منگل کے روز سوچی کی پارٹی کے منتخب قانون سازوں میں سے ایک بو بو او نے کہا، ”ہم قطعی طور پر یہ بات قبول کرنے سے قاصر ہیں کہ ایک ایسے وقت انتخابات ہوں گے، جب بہت سے سیاسی رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہو اور فوج کے ذریعے عوام کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہو۔"
نومبر 2020 میں این ایل ڈی نے ملک کے پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ لیکن تین ماہ سے بھی کم عرصے بعد ہی فوج نے بغاوت کر دیا اور آنگ سان سوچی کو جیل بھیج دیا تھا۔
نوبل انعام یافتہ 77 سالہ رہنما آنگ سان سوچی فوج کی طرف سے دائر کردہ سیاسی مقدمات کے تحت جرم ثابت ہونے کے بعد مجموعی طور پر 33 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ الزامات انہیں سیاست میں فعال طور پر حصہ لینے سے روکنے کے لیے لگائے گئے تھے۔ تاہم فوج نے یہ کہہ کر بغاوت کا جواز پیش کیا کہ ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی تھی، حالانکہ آزاد انتخابی مبصرین کو کوئی بڑی بے ضابطگی نہیں ملی تھی۔
فوج کے سینیئر جنرل من آنگ ہلینگ کے کچھ ناقدین، جنہوں نے بغاوت کی قیادت کی تھی، اب میانمار کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انہوں نے یہ کام اس لیے کیا کیونکہ الیکشن نے ان کے اپنے سیاسی عزائم کو ناکام بنا دیا تھا۔
ملک میں نئے انتخابات کے لیے ابھی تک کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی ہے، تاہم فوج کے اپنے منصوبوں کے مطابق یہ انتخابات جولائی کے اواخر تک ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ پیر کے روز ہی میانمار کے حکمران فوجی سربراہ نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ملکی معزول رہنما آنگ سان سوچی کے خلاف بغاوت کے بعد تشکیل پانے والے اپوزیشن گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھیں گے۔
ایک تقریر کے دوران سینیئر جنرل من آنگ نے کہا کہ فوج ان قانون سازوں کے خلاف ''فیصلہ کن کارروائی" کرے گی، جنہوں نے 2021ء میں فوج کے ہاتھوں بے دخلی کے بعد سے عوامی دفاعی افواج (پی ڈی ایف) اور اس کی ایک حلیف اقلیتی ملیشیا کی مدد سے اپنی قومی اتحاد کی حکومت (این یو جی) تشکیل دے رکھی ہے۔
میانمار میں صورتحال کیا ہے؟
ایک مقامی مانیٹرنگ گروپ کے مطابق 2021ء کی فوجی بغاوت کے بعد سے مخالفت کرنے والوں کے خلاف فوج کے کریک ڈاؤن میں 3,100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکمران جنتا پر شہریوں کے اندھا دھند قتل اور دیگر جنگی جرائم کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے میانمار کی صورت حال کو ''مکمل تباہی'' قرار دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔